لاہور۔25مارچ (اے پی پی):پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈکپ 1992 کی تاریخی فتح کی انتیسویں سالگرہ کا جشن منایا۔عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایونٹ کے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔
اس موقع پرنہ صرف پی سی بی نے اپنے مداحوں کے لیے فاتحانہ لمحات کی یادیں تازہ کیں بلکہ یہ بھی واضح کیاکہ اس تاریخی فتح نے کیسے پاکستان میں بسنے والی ایک نسل کو اس کھیل سے روشناس کروایا۔قومی کرکٹ ٹیم کے موجودہ ہیڈ کوچ اور سال 2016 میں آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر پہنچنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے کہاکہ یہ فتح پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، انہیں آج بھی یاد ہے کہ وہ اس وقت ایف ایس سی کے طالب علم تھے اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے ٹائم زون کی وجہ سے انہیں ورلڈکپ کے میچز دیکھنے کے لیے صبح جلدی اٹھنا پڑھتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس تاریخی فتح نے ان میں کرکٹ کا شوق پیدا کیا، ورلڈکپ سے قبل وہ صرف ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلا کرتے تھے مگر پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیمپئن بننے کے بعد انہوں نے باقاعدہ ہارڈبال سے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔
مصباح الحق نے مزید کہا کہ اس ورلڈکپ میں عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت، بطور ایک سینئر کرکٹر جاوید میانداد کاکردار اور انضمام الحق، وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی بحیثیت نوجوان کرکٹر کارکردگی قابل دیدتھی، انہوں نے اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران ان کرداروں سے بھرپور رہنمائی حاصل کی۔قومی کرکٹ ٹیم کے موجودہ بیٹنگ کوچ اور دس ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے کلب کے واحد پاکستانی رکن یونس خان کاکہنا تھا کہ وہ اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔
انہوں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ تھا مگر وہ ورلڈکپ کے میچز دیکھنے کی غرض سے سارا دن ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہتے تھے۔ یونس خان نے کہا کہ انہیں آج بھی اس ورلڈکپ کے فائنل میں پھینکی گئی ایک ایک گیند یادہے اوریہ جیت سال 2009 میں کھیلے گئے آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دوران ان کی حوصلہ افزائی کاباعث بھی بنی۔آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017 کی فاتح پاکستان کرکٹ ٹیم کے رکن محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ تمام پاکستانیوں کے لیے یہ ایک قابل فخر لمحہ تھااور اس فتح نے انہیں کرکٹ کھیلنے پر متاثر کیا، اس وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔ویمنز ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی سب سے کامیاب باﺅلر ندا ڈار نے کہا کہ یوں تو وہ اس وقت پانچ سال کی تھیں مگر پاکستان کے ورلڈ چیمپئن بننے پر ان کے گھر میں جس جوشیلے انداز سے خوشی منائی گئی وہ انہیں آج بھی یاد ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھی ایک دن ملک کی نمائندگی کریں گی۔
آئی سی سی انڈر 19 کرکٹ ورلڈکپ 2006 اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017 کی فاتح پاکستان کرکٹ سائیڈز کے کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ اس تاریخی فتح کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، یاد ہے کہ انہوں نے کرکٹ کھیلنے کا آغاز بھی ورلڈکپ کے بعد ہی کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس تاریخی فتح میں اہم کردار ادا کرنے والے انضمام الحق، معین خان اور مشتاق احمد ہمارے لیجنڈز بنے،یہ کامیابی آج بھی ہمارے کھلاڑیوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔ دوسری طرف ورلڈکپ 1992 کی چیمپئن ٹیم کے رکن عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد نے قومی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو فاتحانہ سوچ اپنانے کے لیے مفید مشورےدئیے۔
ٹورنامنٹ میں 32.60کی اوسط سے 326 رنز بنانے والے عامر سہیل نے امام الحق،حیدر علی، آصف علی، عبداللہ شفیق، دانش عزیزاور عماد بٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچز میں بھاری مارجن سے شکست کے باوجودہمارے پاس اگلے راﺅنڈ میں رسائی کا موقع موجود تھا، ایسے میں آسٹریلیا کے خلاف میچ ہمارے لیے مارو یا مرجاﺅ کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس میچ سے قبل ٹیم کا ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا جہاں سینئر اور جونیئر تمام کھلاڑی مدعو تھے اور ہمیں یہاں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کا کہا گیا۔
عامر سہیل نے کہا کہ یہ اجلاس ہمارے لیے ایونٹ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور اس کے بعد ہم نے پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا۔ ا نہوں نے کہا کہ ہمیں کرکٹ میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اگر آپ کی تکنیک اچھی ہے تو آپ ان چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ٹورنامنٹ میں11 وکٹیں حاصل کرنے والے عاقب جاوید نے شاہین شاہ آفریدی اور حارث رﺅف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے کسی بھی کرکٹر کی فارم خراب ہو جاتی ہے مگر فاتحانہ سوچ کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود پر اعتماد کریں۔
انہوں نے کہا کہ ٹورنامنٹ کے ابتدا میں ہی پے درپے شکستوں کی وجہ سے ہمیں خود پر اعتماد نہیں تھا مگر ہمارے کپتان عمران خان کو ہم پر اعتماد تھا اور پھر آسٹریلیا کے خلاف جیت نے ہمارا اعتماد اتنا بڑھا دیا کہ ہم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ٹورنامنٹ کے 9 میچز میں 16 وکٹیں حاصل کرنے والے مشتاق احمد نے شاداب خان اور عثمان قادر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک چیمپئن کبھی ہار نہیں مانتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب ہمت ہار چکے تھے مگر عمران خان کے حوصلے بلند تھے، انہیں ہم پر یقین تھا، وہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے اور بالاآخر ہم نے تقدیر بدل دی۔
مشتاق احمد نے کہا کہ فائنل میں ہماری ٹیم کا ایک ایک کھلاڑی خود اعتمادی کی ایک مثال تھا، ہم سب کو یقین تھا کہ یہ میچ ہم ہی جیتیں گے، انگلینڈ کے گریم ہک اس وقت ایک اچھی فارم میں تھے مگرمیرے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انہیں لیگ اسپن کھیلنی ہی نہیں آتی اور وہی ہوا کہ وہ میری گگلی پر آ ئوٹ ہوگئے۔سابق کرکٹر نے کہا کہ 1992 ورلڈکپ کی فتح ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے، خود پراعتماد کرنا چاہیے اور آخری وقت تک لڑنا چاہیے۔