اسلام آباد۔2جون (اے پی پی):پاکستان اور تاجکستان نے تجارت، دفاع، ماحولیاتی آلودگی، تعلیم، ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ خطے کی ترقی، امن اور تجارتی مواقع سے استفادہ کیلئے افغانستان میں تنازعہ کا پرامن سیاسی حل ناگزیر ہے، ماحولیاتی آلودگی اور اسلامو فوبیا کیخلاف پاکستان اور تاجکستان ملکر آواز بلند کریں گے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کے کشمیر پر 5 اگست کے اقدامات خطے کے امن کے لئے خطر ہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ بدھ کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تاجکستان کے صدر کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
وہ اس سے قبل بھی پاکستان آ چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ بھی اتفاق ہے کہ میری اور تاجکستان کے صدر کی تاریخ پیدائش ایک ہے۔ ہم نے آج کافی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ان میں تجارت سب سے اہم ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات کے فروغ کے لئے ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں جس سے دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات بڑھیں گے۔ گوادر سے تاجکستان بھی بھرپور استفادہ کرسکتا ہے۔ اس سے ہمارے باہمی تجارتی تعلقات بھی مستحکم ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تعلیم، ثقافت اور دفاع کے شعبوں میں ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں۔ تاجکستان کو پاکستان میں بننے والے ہتھیاروں میں بھی دلچسپی ہے۔ ہم دفاع کے شعبہ میں بھی اپنے تعلقات کو بڑھائیں گے اور اس حوالے سے مزید تبادلہ خیال بھی کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور تاجکستان کو ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارتی رابطوں کے فروغ کے لئے افغانستان میں امن بے حد اہمیت رکھتا ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ افغانستان میں مسئلے کا سیاسی حل نہ نکلنے کی صورت میں ہم بھی متاثر ہوں گے اورخطے کے ساتھ ہماری تجارت بھی متاثر ہوگی اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہو گا۔ افغانستان سے جو دہشت گرد یہاں آ کر پناہ لیتے ہیں کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔ تاجکستان کو بھی یہی خدشات ہیں۔ اس لئے دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ افغانستان میں جب غیر ملکی افواج کا انخلا ہو تو ایک ایسی سیاسی حکومت ہو جو انتشار کو روک سکے اور امن قائم ہو۔
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ 1989ء میں روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی برادری کے تعاون سے افغانستان میں پرامن سیاسی حل ناگزیر ہے۔ تاجکستان کے صدر کے ساتھ اس حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تیسرا چیلنج جو دونوں ممالک کو درپیش ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہے۔ دونوں ممالک کا انحصار گلیشیئرز سے حاصل ہونے والے پانی پر ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ تاجکستان کے صدر نے مجھے بتایا ہیکہ ان کے ایک ہزار گلیشئرز پگھل چکے ہیں جبکہ ہمارا بھی 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے ہی آتا ہے اور گلوبل وارمنگ سے کاربن کے اخراج سے ماحولیات کو شدید خطرہ ہے۔ پوری دنیا کو مل کر گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے، ہم نے اس حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیاہے اور مل کرآواز بلند کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں موجود مواقع سے تب ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے جب خطے میں امن قائم ہو۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیرکے حوالے سے جو یکطرفہ اقدامات کئے وہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات 5 اگست کے اقدامات کو واپس لئے جانے تک قائم نہیں ہوسکتے، ایسا کرنا کشمیریوں کے ساتھ غداری ہو گی، بھارتی اقدامات خطے کے امن کے لئے خطرہ ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سٹرٹیجک اہمیت ہے۔ پاکستان سارے علاقے کو کنیکٹ کر سکتا ہے۔ بھارت کے رویے کی وجہ سے پورے خطے کی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ تاجکستان کے صدر کے ساتھ اسلاموفوبیا کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے کہاکہ اسلامو فوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کو بالخصوص مغربت میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلاموفوبیا کی سب سے بڑی وجہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس میں گستاخی اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ہے جبکہ کسی اور مذہب کا تعلق دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2025 کو گلیشیئرز کے پگھلنے کے حوالے سے آگاہی اور ان کے تحفظ کے سال کے طور پر منایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تاجکستان کے ساتھ کرپشن کی روک تھام کے لئے ادارہ جاتی تعاون کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہو جاتا ہے۔کمزور لیگل سسٹم کے باعث غریب ملکوں کی دولت لوٹ کر امیر ملکوں میں منتقل کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ وہ دورے کی دعوت دینے اور شاندار استقبال کرنے پر وزیراعظم عمرا ن خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔آج کی ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ اس سے باہمی ہم آہنگی میں اضافہ ہوا۔ وفود کی سطح پر بھی تعمیری بات چیت ہوئی جس سے دونوں ملکوں کے مابین تعاون اور دوستانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔
تاجکستان پاکستان کو اپنا اہم برادر ملک سمجھتا ہے۔ پاکستا ن کے ساتھ تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے خواہاں ہیں۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں کو خشکی میں گھرے وسط ایشیائی ممالک کے لئے مختصر ترین تجارتی راستہ قرار دیتے ہوئے گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں تک رسائی میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان سے گزرنے والی تجارتی راہداری کے قیام کی حمایت کی۔ انہوں نے توانائی اور آبی وسائل کے انتظام کے لئے پاکستان اور تاجکستان کے مابین مکمل تعاون اور اس سلسلے میں کاسا 1000 منصوبے سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان کو اپنا قابل اعتماد شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کے لئے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کی بات چیت میں معیشت، پارلیمان، توانائی، زراعت، صحت اور کوویڈ 19 کی صورتحال پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے تناظر میں تاجکستان اور پاکستان کو انسداد دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اور منظم جرائم کیخلاف مضبوط تعاون کی ضرورت ہے۔ تاجک صدر نے کہا کہ افغانستان میں امن تاجکستان اور پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تبادلہ خیال کیا اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت مسلم ممالک اور تنظیموں کے ساتھ ملکر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔