پانچ بڑے برآمدی شعبوں کو ترجیحی بنیاد پر کم قیمت پر گیس اور بجلی فراہم کی جائے گی ، خرم دستگیر

175

اسلام آباد۔26جولائی (اے پی پی):وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمت میں مرحلہ وار اضافہ کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ 5 بڑے برآمدی شعبوں کو ترجیحی بنیاد پر کم قیمت پر گیس اور بجلی فراہم کی جائے گی، ڈیڈیکیٹڈ صنعتی فیڈرز کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری رہے گی، غریب ترین صارفین پر بجلی کی قیمت میں اضافہ کا اثر نہیں پڑے گا، 26 جولائی سے بجلی کی قیمت میں اضافہ 3 روپے 50 پیسے فی یونٹ اورآئندہ ماہ سے مزید 3 روپے 50 فی یونٹ ہوگا، اکتوبر میں بجلی کی قیمت 90 پیسے فی یونٹ بڑھے گی، نومبر کے بعد بجلی کی قیمت میں کمی شروع ہو جائے گی، سابق حکومت کے دور میں وزرا اور مالی سہولت کاروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے زیادہ پیداواری لاگت والے بجلی گھر چلا کر عوام کو لوٹا گیا، اب جتنی ضرورت ہو گی اتنی ہی بجلی پیدا کی جائے گی، بجلی کے واجبات کی وصولی اور لائن لاسز میں کمی کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، بجلی کی پیداوار کیلئے اب سستے ملکی ذرائع پر انحصار کریں گے، نئی شمسی توانائی پالیسی کا اعلان چند روز میں ہو جائے گا۔

منگل کو یہاں وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے پہلا فیصلہ یہ ہے کہ ملک میں جہاں بھی ڈیڈیکیٹڈ صنعتی فیڈرز ہیں وہاں بجلی کی فراہمی 24 گھنٹے جاری رہے گی تاہم مکس فیڈرز پر کوشش کی جائے گی کہ بجلی کی فراہمی میں کم سے کم تعطل آئے اور لوگوں کا روزگار جاری رہے اور معاشی سرگرمیوں پر زیادہ اثر نہ پڑے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں توانائی کا بحران ہے، ایندھن اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، کابینہ نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ 5 بڑے برآمدی شعبوں کو ترجیحی بنیاد پر کم قیمت پر بجلی اور گیس کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی، ہم خطہ کے دیگر مدمقابل ممالک کے قریب تر ٹیرف دینا چاہتے ہیں تاکہ برآمدات میں مسابقت پیدا ہو۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمت میں اضافہ کی بھی منظوری دی ہے لیکن وزارت توانائی کو ہدایت کی گئی ہے کہ غریب ترین صارفین پر اس کا اثر نہ پڑے اور یہ صارفین ایک سے 50 یونٹ، ایک سے 100 یونٹس اور ایک سے 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں، ان پر بجلی کی قیمت میں اضافہ کا اثر نہیں پڑے گا، بجلی کے ٹیرف کی آخری مرتبہ ری بیسنگ فروری 2021 میں کی گئی تھی، اس کے بعد سابق حکومت نے جان بوجھ کر اس میں تاخیر کی، بجلی کی قیمت میں اضافہ سے ایک تہائی صارفین کیلئے کوئی اضافہ نہیں ہو گا، جتنی بجلی استعمال کی جائے گی اس کی اتنی ہی قیمت ادا کرنا پڑے گی، فیول سرچارج ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت غریب ترین اور صنعتی صارفین کا تحفظ کررہی ہے، جون میں کے۔ٹو نیوکلیئر پاور پلانٹ کی ری فیولنگ ہو رہی تھی، رواں ماہ کے آغاز سےاس سے 1100 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گئی ہے، جولائی میں بارشوں سے تربیلا بجلی گھر کی پیداوار بھی 4200 میگاواٹ ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ 26 جولائی سے 3 روپے 50 پیسے فی یونٹ اور آئندہ ماہ سے مزید 3 روپے 50 پیسے فی یونٹ اضافہ ہو گا جبکہ اکتوبر میں 90 پیسے فی یونٹ کا مزید اضافہ کیا جائے گا، تین ماہ مشکل ہیں لیکن نومبر کے بعد بجلی کی قیمت میں کمی شروع ہو جائے گی، جون کیلئے اوسط ٹیرف 21 روپے 50 پیسے فی یونٹ تھا، دسمبر تک اس میں اضافہ ہو گا پھر اس میں کمی ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے، کوئلہ اور خاص طور پر گیس بین الاقوامی سطح پر دستیاب نہیں ہے، ایک دوست ملک سے طویل مدتی معاہدہ کے ذریعے گیس حاصل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ زیر التوا معاملات بھی آئندہ چند ہفتوں میں حل ہو جائیں گے جس سے معیشت مضبوط ہو گی، بجلی کی فراہمی میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے لیکن صورتحال اب بہتر ہو گئی ہے، وزیراعظم خود اس کی نگرانی کر رہے ہیں، پوری دنیا میں اجناس کی قیمتیں بڑھی ہیں، لائن لاسز میں کمی اور واجبات کی وصولی بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ 31 مارچ کو 2467 ارب روپے تھا جس میں موجودہ حکومت نے 214 ارب روپے کمی کی ہے اور 30 جون تک گردشی قرضہ کم ہو کر 2253 ارب روپے رہ گیا ہے، یہ بجلی کے شعبہ کی سمت درست کرنے کی طرف اہم قدم ہے، بجلی کے واجب الادا محصولات 2018 میں 300 ارب روپے تھے، سابق حکومت کے دور میں ان میں 700 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور بڑھ کر ایک ہزار ارب روپے تک پہنچا دیئے گئے،ہم واجبات کی وصولی بڑھانے کیلئے کوشش کرر ہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1320 میگاواٹ کا شنگھائی الیکٹرک پاور پلانٹ ، 1320 میگاواٹ کا جامشورو پاور پلانٹ، 1200 میگاواٹ کے تریمو پاور پلانٹ اور 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے کی تکمیل میں سابق حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تاخیر کی اور اس کا مقصد فاشسٹ ٹولے کے سہولت کاروں کو فائدہ پہنچانا تھا، بہتر پیداواری صلاحیت والے بجلی گھر بند کرکے سابق حکومت کے وزرا اور مالی سہولت کاروں کے پاور پلانٹس چلا کر عوام کو لوٹا گیا لیکن یہ سلسلہ اب بند ہو چکا ہے، اگرچہ ملک میں بجلی کی کمی ہے لیکن بجلی گھروں کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے اور جتنی بجلی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی پیدا کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں نیا قانون بنایا جارہا ہے جس کے تحت حکومتوں کے درمیان کمرشل معاہدوں کے معاملات میں نظم و ضبط پیدا ہو گا، دوست ممالک ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن نجکاری قوانین میں بہت سے ایسے معاملات ہوئے جن کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، حکومت کی سطح پر ٹرانزیکشن اور شفافیت سے معاملات کو آگے بڑھانے میں یہ قانون مددگار ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے پانی، شمسی توانائی، تھرکول، ہوا اور مقامی نیوکلیئر ذرائع پر انحصار کیا جائے گا، اس سے ایندھن پر لاگت میں کمی ہو گی اور بجلی بھی سستی ملے گی، ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھائو کا بھی اس پر اثر نہیں پڑے گا، چند دنوں میں وزیراعظم شمسی توانائی پالیسی کا اعلان کریں گے، شمسی توانائی سے بجلی کی پیداواری لاگت میں مزید کمی آئے گی اور صارفین کو بھی فائدہ ہو گا، جیسے ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی وفاقی حکومت نے صارفین کو اس کمی کا فائدہ منتقل کیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مختلف علاقوں سے واجبات کی وصولی بڑا چیلنج ہے، پچھلے چار سال کے دوران صوبے اور وفاق میں ایک ہی جماعت برسر اقتدار رہی لیکن اس نے واجبات کی وصولی بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کیا، لائن لاسز بھی بڑھتے چلے گئے اور وہاں پر ایسے ایسے مقامات پر بجلی دی گئی جہاں پر کوئی واجبات ادا نہیں کرتا، قبائلی علاقوں، بلوچستان اور سندھ کے کچھ علاقوں میں بھی واجبات کی وصولی ایک چیلنج ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر اس چیلنج سے نمٹنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ 2023 کے آغاز سے جدید میٹر لگائے جائیں گے تاکہ بجلی کے نقصانات میں کمی لائی جا سکے اورواجبات کی وصولی بڑھائی جا سکے، ہماری کوشش ہے کہ نئے کنکشن کے اجرا میں بھی تاخیر نہ ہو اور صارفین کو فوری کنکشن مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو صارفین واجبات ادا کریں گے انہیں گھروں، ٹیوب ویلوں اور کاروبار کیلئے بجلی ملے گی۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ سابق حکومت نے فروری 2021 کے بعد بجلی کے ٹیرف کی ری بیسنگ نہیں کی لیکن فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی جاتی رہی، وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ غریب ترین صارفین کا تحفظ کیا جائے اور اصل صورتحال سے عوام کو آگاہ کیا جائے، ہمیں کچھ وقت چاہئے ، اکتوبر کے بعد بجلی کی قیمت میں کمی آنا شروع ہو جائے گی، بجلی کی قیمت میں اضافہ کا ملک کی 45 فیصد آبادی جو 8 کروڑ صارفین بنتے ہیں، ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، نیپرا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بنیادی ڈھانچہ کا جائزہ لے کر بجلی کے نقصانات کا تعین کرتا ہے، اس سے اوپر نقصانات کی شرح کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس کی کمی ہے جس کی وجہ سے نئے گیس کنکشن پر پابندی ہے ، ایس این جی پی ایل کو موسم سرما میں 480 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس کی گیس کی اوسط گھریلو طلب نومبر سے فروری تک 1500 ایم ایم سی ایف ڈی ہوتی ہے، گیس کے ذخائر میں 10 فیصد کی شرح سے کمی ہو رہی ہے۔