27.7 C
Islamabad
اتوار, اپریل 20, 2025
ہومقومی خبریںسپریم کورٹ کے فیصلے کا مسلم لیگ ن پر کوئی فرق نہیں...

سپریم کورٹ کے فیصلے کا مسلم لیگ ن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، پنجاب کا مینڈیٹ مسلم لیگ ن کا ہے،  وفاقی وزیر اطلاعات 

- Advertisement -

اسلام آباد۔26جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلم لیگ ن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، پنجاب کا مینڈیٹ پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے، پی ٹی آئی نے پہلے ہی سے آج کے فیصلے کو متنازعہ بنا دیا تھا، آج کے فیصلے سے انتشار میں مزید اضافہ ہوگا، سیاسی جماعتوں نے آئین کی تشریح کے لئے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا، ہماری درخواست ججز تبدیلی کیلئے نہیں بلکہ فل کورٹ کی تشکیل کے لئے تھی، عمران خان اور چوہدری شجاعت کے خطوط پر مختلف فیصلے سامنے آئے۔

منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ دو دن سے میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کی نوٹنکی جاری ہے، فل کورٹ کی اپیل مسترد کرنے کے فیصلے نے آج کے فیصلے کو متنازعہ بنا دیا تھا، سپریم کورٹ بار، سول سوسائٹی، وکلاء برادری، بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں اور قانونی ماہرین نے کل کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا، فل کورٹ آئینی مسئلہ کی تشریح کے لئے بنا دیا جاتا تو آج کا فیصلہ متنازعہ نہ ہوتا۔

- Advertisement -

انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں ہوں گے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، مسلم لیگ (ن) جانتی ہے کہ پنجاب مسلم لیگ (ن)، نواز شریف اور شہباز شریف کا ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فیصلے سے پنجاب پر ایک ایسے شخص کو مسلط کر دیا جائے جس کا پنجاب میں مینڈیٹ ہی نہ ہو، یہ فیصلہ ملک میں ”جوڈیشل کو” سے مطابقت رکھتا ہے، اس سے ملک مزید انتشار اور انارکی کی طرف جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آدھی سے زیادہ عوام اس فیصلے کو نہیں مانتی۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ ہمیں فل کورٹ چاہئے، یہ آئین کی تشریح اور پارلیمان کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی پٹیشن نے اس بینچ پر عدم اعتماد کر دیا تھا، جب فل کورٹ کی اپیل مسترد ہوئی تو آج ہمارے وکلاء نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا بھی بائیکاٹ کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آر ٹی ایس بٹھا کر ملک پر مسلط کئے گئے لوگوں کو پنجاب پر دوبارہ مسلط کیا جائے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کے ایک خط کے تحت 25 ممبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی، انہیں ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے جبکہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی بحیثیت پارٹی سربراہ ہدایت جاری کی تھی کہ ان کے 10 ممبران کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، چوہدری شجاعت نے کہہ دیا تھا کہ ان کی پارٹی کے ارکان عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے، اس بارے میں چوہدری شجاعت کا لکھا گیا خط حرام اور اسی طرز پر عمران خان کا لکھا گیا خط حلال ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر چوہدری شجاعت کی ہدایت پر 10 ووٹ نہیں گنے گئے تو وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت نہیں گنے گئے جس میں عمران خان کے اسی حیثیت میں لکھے گئے خط کے تحت 25 لوگوں کو ڈی سیٹ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان خط لکھے تو وہ ٹھیک ہے اور چوہدری شجاعت خط لکھے تو وہ قبول نہ ہو، اسی لئے ہم نے فل کورٹ مانگی تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب یہ بینچ بنا تو اس وقت سے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا، فل کورٹ بن جاتی تو آج کا فیصلہ مختلف ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی وجہ سے آج آئین کی تشریح میں فرق کیا جا رہا ہے، اپنی مرضی سے آئین کی تشریح کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو پانچ رکنی بینچ نے اقامہ پر نکال دیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک ملک میں معاشی تباہی اور بے روزگاری ہے، ملک میں فساد، اور نفرت کے بیج بوئے گئے، آج کے فیصلے سے ملک میں مزید انتشار پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ تھا کہ فیصلے کی تشریح کے لئے فل کورٹ بنایا جانا چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ نواز شریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد کا آج سے دوسرے باب کا آغاز ہوا ہے، پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء میں عوام کا چوری کیا گیا اصل مینڈیٹ عوام کو واپس دلوائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کے حوالے سے فیصلہ پارٹی کرے گی، اس بارے میں مشاورت جاری ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ فل کورٹ میں مرضی کے ججز نہیں ہوتے، ہم نے لارجر بینچ یا بینچ کو تبدیل کرنے کی پٹیشن نہیں کی تھی، ہماری پٹیشن فل کورٹ کے بارے میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئین کی تشریح اور پارلیمان کی بالادستی کا معاملہ ہے، فل کورٹ کی درخواست دینا ہمارا حق تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے یہ معاملہ شروع ہوا تو بچے بچے کو پتہ تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور چوہدری شجاعت کے خطوط پر سپریم کورٹ کے دو الگ الگ فیصلے ہیں، سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے آپس میں مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی آرٹیکل پر آئین کی دو مرتبہ الگ الگ تشریح نہیں ہو سکتی، یہ انصاف نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم وہ جماعت ہیں جو چار سال بدترین سیاسی انتقام سے گذر کر آئی ہے، ہماری جماعت کے لوگوں پر جھوٹے کیسز بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان چیئرمین نیب، ایف آئی اے کے ہیڈ، ایس ایچ او اور آئی جی پنجاب بھی خود بننا چاہتے ہیں، عمران خان کی فاشسٹ سوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین تھا کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے تو فل کورٹ بنا دیتے، سب کو آج کا فیصلہ تسلیم ہوتا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ نواز شریف نے پہلے بھی عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی، آج سے اس کا دوسرا باب شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہمیں کمزور نہیں کرسکتا، ہم پارلیمان کی بالادستی اور آئین کی بالادستی کی جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے حدود مقرر کر رکھی ہیں کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں مداخلت نہیں ہونے دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بی آر ٹی سکینڈل میں مجرم ہیں، ان اسکینڈلز کی جب پی اے سی میں انکوائری ہو تو اس پر حکم امتناعی جاری کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ملک کے اندر آئین اور قانون کی بالادستی نہیں ہوگی، ملک ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اپنی جدوجہد کا آغاز کر رہی ہے، آئین اور پارلیمان کی بالادستی عوام کو واپس دلوائیں گے۔ ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دے کر آئین شکنی کی تھی، آئین توڑا تھا، پانچ ججوں کا فیصلہ اس پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی دیواریں پھلانگ کر اپنی مرضی کے فیصلے لینا کون سا انصاف ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ فیصلہ متنازعہ ہے، یہ بینچ متنازعہ ہو چکا تھا۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=319028

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں