بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں5 اگست 2019 کا غیر قانونی اقدام : محرکات اور مضمرات

385

ہلال احمد

اسلام آباد۔4اگست (اے پی پی):بھارت نے 1947 میں جموں وکشمیر پر غیرقانونی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا ہوا ہے اور وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے ، کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کیلئے انہیں ہمیشہ ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا، 75 برس کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی پورے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔ بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کےلئے اپنے تمام وسائل اور ہتھکنڈوں کو استعمال کررہا ہے۔ 5 اگست 2019کو مقبوضہ کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے، اس مقصد کے لئے مقبوضہ علاقے میں بھارتی قوانین کا اطلاق بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ بھارت خطے میں بالادست قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، کشمیری عوام اور پاکستان نے کبھی بھی بھارتی بالادستی قبول نہیں کی ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی ہمیشہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز سیاست دانوں کابھی یہ کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا آرٹیکل 370 کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے جس سے بھارت جموں و کشمیر میں قابض قوت بن گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کی گئی ہے۔ ان سارے اقدامات کا مقصد ریاست جموں وکشمیر کی مسلم شناخت کو ختم اور آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم کی جائے۔ بھارتی حکمرانوں نے اپنے آئین کی دفعہ 370 کی موجودگی کو ماضی میں کشمیر پر اپنے ناجائز اور غیر قانونی فوجی تسلط کو جواز کے طور پر ہمیشہ پیش کیا اور اس کے خاتمہ کے بعد اب بھارت کا یہ جواز بھی ختم ہوگیا ہے۔

بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35۔اے کو بھی ختم کیا گیا، ریاست کی شہریت سے متعلق یہ معاملہ تنازعہ کشمیر سے پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ اس قانون کی رو سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری جموں وکشمیرکا شہری نہیں بن سکتا اور نہ زمین وجائیداد کا مالک بن سکتا تھا۔ یہ قوانین1927 سے کشمیر میں نافذ العمل تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں موجود ان تمام دفعات اور شقوں کو ختم کرنے کے درپے تھی جو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں سے ایک الگ مقام دیتی تھی۔ کشمیریوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اب انہیں اقلیت میں بدلنے کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے اور وہ فلسطینیوں کی طرح اپنے خطہ ارض میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے، بھارت سے لاکھوں ہندﺅں کو سرکاری سرپرستی میں کشمیر میں بسانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

مودی حکومت کے کشمیر کے حوالے سے نئے اقدامات سے بھارت کے ہندوکشمیریوں کے وسائل، زمینوں اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کے تحت کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں الگ حیثیت حاصل تھی۔ اس کے تحت بھارتی پارلیمان کے بنائے گئے قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مقبوضہ جموں و کشمیر پر اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔

ان قوانین اور فیصلوں کے کشمیر میں نفاذ کیلئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی منظوری لازمی تھی اور یہ شرط اب ختم ہوگئی ہے اور بی جے پی حکومت کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بھارت کے 2019کے غیر قانونی اقدام کے بعد اب بھارت میں مقیم ہندو مقبوضہ کشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کو علاوہ نوکری اور شہریت بھی حاصل کرسکیں گے۔ بھارتی حکومت نے 18مئی 2020 کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراءسے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس نئے قانون کے بعد اب لاکھوں بھارتی بھی مقبوضہ کشمیر کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں لاکھوں سابق اور حاضر سروس فوجی اور ان کے بچے بھی شامل ہیں، جو طویل عرصہ تک کشمیر میں تعینات اور زیر تعلیم رہے ہیں۔ بھارت اس نئی حکمت علی کے ذریعے کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرسکے گا، اس غیرقانونی اقدام کے نتیجے میں کشمیرکی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوگا۔کشمیریوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اب لاکھوں کی تعداد میں غیرمسلم بھارتی باشندے مقبوضہ علاقہ میں آباد ہوجائیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ ان قراردادوں کو نہ صرف بھارت بلکہ عالمی برادری نے بھی تسلیم کیا ہے۔

تقسیم ہند کے اصولوں اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا جسے برطانوی سامراج نے ہندو رہنمائو ں کے ساتھ ساز باز کرکے زبردستی بھارت کے ساتھ شامل کرلیا۔ کشمیریوں کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلہ کا موقع ملنا چاہئے۔ برسر جدوجہد کشمیریوں کو ان کے مطالبہ آزادی سے دستبردار کرانے کے لئے بھارتی حکومت ایک منصوبہ بند طریقے پر کشمیری عوام کا قتل عام کر رہی ہے، اس کا مقصد مزاحمتی جدوجہد کو بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اورحق خودارادیت تسلیم کرنے کے بجائے اسے امن و امان اور اندرونی سلامتی کا مسئلہ قرار دے رہی ہے، کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کسی کے زیر اثر یا تابع نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد خود چلارہے ہیں، جیسا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانا تنازعہ ہے، کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں اس مسئلہ کے متنازعہ ہونے کی بڑی دلیل ہے۔

بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ بھارت نے حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کررکھا ہے۔ نئے آئینی اقدامات کی آڑ میں بھی سینکڑوں حریت رہنمائوں اور آزادی پسند کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔کشمیر میں ہزاروں افراد کالے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ تحریک آزادی کے بعض کارکنوں کو پہلے ہی موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ بھارتی قابض حکام نے تحریک آزادی کشمیر کے قائد سید علی گیلانی کو کم و بیش ایک دہائی تک اپنے گھر پر نظر بند رکھا اور وہ اسی حالت میں ستمبر 2021 میں دوران حراست اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنماءمحمد اشرف صحرائی بھی گزشتہ سال جیل میں ہی جام شہادت نوش کرگئے۔ بھارت کی فرقہ پرست بی جے پی حکومت کی ایماءپر بھارت کی ایک عدالت نے حریت رہنماءمحمد یاسین ملک کو حال ہی میں ایک من گھڑت مقدمہ میں عمر قید کی سزا سنائی ہے اور وہ اس وقت دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی حکمران بی جے پی چاہتی ہے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ مکمل ادغام ہو اور وہ سمجھتی ہے کہ فوجی طاقت کے بل پر وہ کشمیریوں کو دبائے گی اور یہ کہ نئے قوانین کے نفاذ کے بعد مقبوضہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب حد درجہ کم ہوجائے گا۔

کشمیریوں کا یہ خدشہ بے بنیاد نہیں ہے کہ بھارت کی فرقہ پرست حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں بھارت سے آ کر لوگ مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدیں گے اور مقامی مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے لیکن دوسری جانب کشمیری عوام کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ بھارت کے گھنائونے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے۔