اسلام آباد۔17اگست (اے پی پی):پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان مشاہد حسین سید ، احمد حسن ڈیہر ، سید حسین طارق، ڈاکٹر ملک مختار احمد ، برجیس طاہر ، شاہدہ اختر علہ عامر طلال گوپانگ ، ڈاکٹر اریش کمار ، ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ ڈاکٹر نثار احمد چیمہ اور وجیہ قمرسمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی ۔
اجلاس میں وزارت قانون و انصاف اور وزارت خارجہ کے 20 ۔ 2019 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔آغاز میں چیئرمین نورعالم خان نے پی اے سی بلوچستان کے چیئرمین اور اراکین صوبائی اسمبلی کا خیر مقدم کیا ۔وزارت قانون وانصاف کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران چیئرمین پی اے سی نے باقاعدگی سے ڈی اےسی نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور انہوں نے وزارت قانون وانصاف کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ہر ماہ ایک مرتبہ ڈی اے سی لازمی کریں انہوں نے ہدایت کی کہ تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو یہ ہدایت جاری کی جائے ۔
پی اے سی کے ارکان نے وزارت قانون کے زائد بجٹ کے حوالے سے کہا کہ رقم لے کر خرچ نہ کرنا یہ وزارت کی کارکرگی پر سوالیہ نشان اور بد انتظامی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ پی اے سی کے ارکان کے مطالبہ پر چیئرمین پی اے سی نے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا کہ وزارت قانون کا پرفارمنس آڈٹ کیا جائے ۔ نور عالم خان نے کہا کہ بدقسمتی سے مالیاتی نظم ونسق کے حوالے سے تمام وزارتوں کی یہی صورت حال ہے ۔
سید حسین طارق کی تجویز پر پی اے سی کے چیئرمین نے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا کہ تمام ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت کی جائے کہ ہو وزارت کا انٹرنل پرفارمنس آڈٹ کیا جائے ۔ نور عالم خان نے ہدایت کی کہ تمام نئی اور پرانی کار مینو فیکچرنگ کمپنیوں ، فرنس، سٹیل اور تمباکو کے شعبوں کا آڈٹ کرکے رپورٹ ایک ماہ میں پیش کی جائے ۔ انہوں نے بتایا کہ جو افسران کرپشن میں ملوث پائے گئے اب وہ دوبارہ نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں ہم نے تمام اداروں کو خطوط لکھے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دوبارہ نہ رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کروڑوں میں تنخواہیں لیتے ہیں ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کم تنخواہ پر اچھا کام کرنے والے لوگ مل سکتے ہیں ۔ کرکٹ بورڈ ، آئل و گیس سیکٹر ، نیشنل بنک سمیت دیگر سرکاری شعبہ کے اداروں میں بھاری تنخواہوں اور مراعات کا سلسلہ رکنا چاہیئے ۔ آئین کے آرٹیکل 170 کے تحت پبلک سیکٹر کے ہر ادارے کا سپشل آڈٹ ہو سکتا ہے ۔
آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ہم اداروں کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہیں ان کی فیصلہ سازی میں مداخلت نہیں کرتے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ آئین کے تحت کوئی ادارہ بھی آڈٹ سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ ایم ڈی سوئی نادرن 6 ملین سے زائد تنخواہ لیتے ہیں ۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ان اداروں کے بورڈز کو بھی ایسے لوگوں کی تعناتیوں کا اختیار نہیں ہونا چاہیئے اس سلسلے میں ہم وزیر اعظم سے بھی درخواست کریں گے ۔
اگر باہر سے کسی کی ضرورت محسوس ہو بھی 5 سے 10 لاکھ تنخواہ ہونی چاہیئے ۔ 70 اور 80 لاکھ ماہوار تنخواہ قابل قبول نہیں ہے ۔ برجیس طاہر نے کہا کہ گیس کا محکمہ بند پڑا ہے اور ایم ڈی سوئی ناردرن 58 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں ۔ نور عالم خان نے وزارت قانون و انصاف کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران ریمارکس میں کہا کہ ان کی تخواہوں اور مراعات کے بارے میں کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔
دو ایم ڈی جن میں سے ایک کینیڈین اور دوسرا امریکی شہریت رکھتا تھا دونوں بھاگ گئے ہیں ان میں سے ایک نے ادارے کو 56 ارب روپئے کا نقصان دیا ہے ۔ میں نے وزارت داخلہ سے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا بھی کہا ہے ۔