اسلام آباد۔4اکتوبر (اے پی پی):پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار کے 2020-19 کے آڈٹ اتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس کے آغاز میں نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن سے متعلقہ آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے سیکرٹری صنعت وپیداوار نے کہا کہ ابھی بھی اس ادارے کی نجکاری کا عمل پوری طرح مکمل نہیں ہوا ۔ یہ کمپنی 2000 سے فعال نہیں ہے ۔
پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ اس کمپنی کی بیلنس شیٹ سامنے آنی چاہیئے ۔ اس بات کی وضاحت ہونی چاہیئے کہ یہ کس کی ملکیت ہے ۔ سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں ایک ماہ کا وقت دیا جائے ۔ پی اے سی کے وزارت صنعت و پیداوار کو اس معاملے پر ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس معاملے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے ۔ نجکاری کمیشن نے بتایا کہ اس ادارے کی نجکاری 1992 میں ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ جب اس ادارے کی نجکاری ہوئی تو صرف انہوں نے 40 فیصد ادائیگی کی باقی رقم ادا نہیں ہوئی جس پر ہم نے عدالت سے رجوع کیا ۔ ہماری 30 جون تک مارک اپ سمیت 3 ارب روپئے کی رقم ابھی بھی باقی ہیں ۔ اس کیس کی اگلی سماعت 22 اکتوبر کو ہے ۔ فرنیچر پاکستان میں زمین کی خریداری، مشینری اور انسانی وسائل کے حوالے سے بے ضابطگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایف آئی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ تفتیش مکمل کرکے ایف آر ہو چکی ہے ۔ فیصل شمیم اس کا ذمہ دار ہے ۔ وہ ضمانت پر ہیں ۔
برجیس طاہر نے کہا کہ اس شخص کو بطور سی او لگانے والے ذمہ دار کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کے بورڈز کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ پی اے سی کو پیش کی جائے ۔ نیب حکام نے بھی بتایا کہ ہم نے اس معاملے پر ریفرنس بھی داخل کر دیا گیا ہے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ کھائو پیو کمپنیاں ہیں ان کی کوئی افادیت نہیں ہے ۔ نورعالم خان نے آڈٹ حکام کو ہدایت کی کہ جس بورڈ نے اس ٹرانزیکشن کی اجازت دی اور جس نے فیصل شمیم کو لگایا ان امور کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیئے ۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت کو ایسی تمام کمپنیوں کو ختم کرنے کی سفارش کی جائے ۔ نور عالم خان نے کہا کہ اداروں میں جعلی ڈگری والوں کے خلاف بھی نوٹس لیں گے ۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران نیب حکام نے پی اے سی سے شکایت کی کہ ہم نیب کی اعانت کرتے ہیں مگر نیب ہمیں مدد کے لئے بھی بلائے تو مجرموں کی طرح سمن کرتے ہیں ۔ پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ انہیں مہذب الفاظ استعمال کرنا چاہیئے ۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ہم ان کے دفتر میں تو مہذب طریقے سے بلانے پر بھی نہیں جائیں گے کیونکہ یہ گیٹ پر شناختی کارڈ رکھ لیتے ہیں ۔ نیب کو ہماری اعانت کی ضرورت ہو تو ہمارے دفتر آجائیں ۔
پی اے سی نے سیکرٹری صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ اپنے ماتحت اداروں میں تمام ملازمین کی ڈگریاں چیک کرائیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے خوردونوش کی تقسیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین نے کہا کہ سبسڈی والی اشیاء صرف غریبوں اور معاشرے کے مراعات یافتہ طبقے کا حق ہے اور اس کی تقسیم کمپیوٹرائزڈ میکنزم کے ذریعے بالکل شفاف ہونی چاہیے۔ پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کا ڈسٹری بیوشن میکنزم ناقص ہے پی اے سی نے سیکرٹری صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں کہ سبسڈی والے آٹے کے تھیلے کیوں دھوکہ دہی چیئرمین پی اے سی کے نام پر جاری کیے گئے۔
کمیٹی نے سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار کو بھی مشورہ دیا کہ یوٹیلٹی سٹورز کے باہر خواتین کی تذلیل نہ کی جائے۔ اشیائے خوردونوش کی تقسیم کو صرف غریبوں کے لیے مخصوص کرنے کو ہدف بنایا جائے۔ کمیٹی نے یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کو ہدایت کی کہ وہ یوٹیلیٹی سٹورز کی قابل رحم حالت کا جائزہ لیں اور خاص طور پر یہ دیکھیں کہ سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں روزن مزاری، ڈیرہ غازی خان وغیرہ میں یوٹیلیٹی سٹورز لوگوں کی ضروریات پوری کر رہے ہیں یا نہیں۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا وہاں صرف منظور شدہ اشیائے خوردونوش فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں۔
غریبوں میں سبسڈی والی اشیائے خوردونوش کی تقسیم کے دوران عوامی نمائندوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ کمیٹی نے اجلاس میں آٹو موبائل کمپنیوں کے صدور اور سی ای اوز کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین نے سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں آٹو موبائل کمپنیوں کے سربراہان کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
پی اے ڈی کی جانب سے چیئرمین ایف بی آر، ممبر کسٹم اینڈ ان لینڈ ریونیو (ایف بی آر)، سیکرٹری وزارت تجارت، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایس ای سی پی کو بھی آئندہ اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی گئی ۔ پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ گاڑیوں کی قیمتیں وزارت صنعت و پیداوار کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہیں، کمیٹی نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ ملک میں آٹو موبائل کمپنیوں کی اجارہ داری پر قابو پانے کے لیے گاڑیوں کی درآمد کو کھول دیں۔