سیلاب اور ہنگامی صورتحال میں تعلیمی نقصان سے بچنے کے لئے فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ماہرین

سیلاب اور ہنگامی صورتحال میں تعلیمی نقصان سے بچنے کے لئے فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ماہرین

اسلام آباد۔15فروری (اے پی پی):ماہرین نے سیلاب کے دوران تعلیم کے نقصان کی تلافی کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی آفات میں تعلیم میں خلل کو روکنے کے لئے ان حالات سے نمٹنے کے لئے تعلیمی نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں سیلاب کے بعد کی تعلیمی صورتحال کے بارے میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ Towards a Resilient Education Recovery from Pakistan’s Floods – Rapid Response Research کی تقریب رونمائی کے موقع پر کیا گیا ۔

رپورٹ کے ناشر پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) نے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ، ملالہ فنڈ اور ایجوکیشن چیمپئن نیٹ ورک کے تعاون سے ایک اعلیٰ سطحی پالیسی مباحثے کا اہتمام کیا جس میں عالمی بینک، جائیکا، ایف سی ڈی او ، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی ، یونیسف اور یو این ڈی پی کے نمائندگان نے شرکت کی۔رپورٹ میں پاکستان کے تعلیمی نظام میں پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ہنگامی حالات میں متاثرہ بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کا فقدان سرفہرست ہے۔

رپورٹ میں وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی اور طلباء کے محض اندراج کے بجائے ان کے سیکھنے کے عمل کو مؤثر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس تحقیق کے ابتدائی نتائج کو وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات، حکومت پاکستان اور یو این ڈی پی کے پلان، ‘پاکستان فلڈز 2022: ریسیلینٹ ریکوری، بحالی، اور تعمیر نو کے فریم ورک (4RF)’ میں تعلیم کے سیکشن میں شامل کیا گیا ہے۔اس موقع پر بات کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وسیم اجمل نے کہاکہ 2022 کے سیلاب سے تقریباً 36 لاکھ بچے متاثر ہوئے اور 34,000 سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا۔

وفاقی وزارت تعلیم سمیت تمام تعلیمی محکمے اب سیلاب سے متاثرہ بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے اقدامات پرعمل پیرا ہیں، اور اس ہفتے وزیر تعلیم جنیوا میں ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ بچوں کی امداد میں اضافے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ میں اس اہم وقت پر اس اہم اور عملی رپورٹ کا خیرمقدم کرتا ہوں۔پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کی سربراہ زہرہ ارشد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر میں کئی اضلاع جو گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہوئے تھے وہی ہیں جہاں 2010 اور 2011 میں بھی بڑے پیمانے پر سیلاب آیا تھا۔

تاہم اس بارہ سالہ طویل عرصے کے دوران ایسی حکمت عملی متعارف نہ کروائی جا سکی کہ جس کے ذریعے ہنگامی حالات میں بچوں کی تعلیم کو جاری رکھا جا سکتا۔ملالہ فنڈ پاکستان کے پروگرام ڈائریکٹر جاوید ملک نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم رپورٹ اسکولوں کی تیز رفتار تعمیر کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ترغیب دیتی ہے تاکہ تمام لڑکیوں اور لڑکوں کے تعلیمی سلسلے کو فوری طور پر جاری کیا جا سکے۔

رپورٹ کی مصنفہ ڈاکٹر معیزہ سرور نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی آفات کے بعد تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیر نو کو تعلیم کی بحالی کے لیے سب سے اہم حکمت عملی مانا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اہم ہے لیکن شواہد کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ محض نئی عمارتوں کی تعمیر نہ تو طلباء کو تعلیم ترک کرنے سے روک پاتی ہے اور نہ ہی اسکا تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر کوئی خاص اثر ہوتا ہے۔رپورٹ کے اجراء کے بعد کئے جانے والے مباحثے کے دوران شرکاء نے تجاویز پیش کرتے ہوئے سیلاب زدہ علاقوں میں قائم کئے گئے عارضی تعلیمی مراکز کو معیاری بنانے کی اہمیت پر زور ڈالا۔