34.4 C
Islamabad
پیر, اپریل 21, 2025
ہومقومی خبریںبھارتی سپریم کورٹ کی کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے اقدامات...

بھارتی سپریم کورٹ کی کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے اقدامات کی توثیق متعصبانہ اور سیاسی محرکات پر مبنی فیصلہ ہے، قانونی ماہرین اور عالمی مبصرین کی ”اے پی پی“ سے گفتگو

- Advertisement -

اسلام آباد۔12دسمبر (اے پی پی):بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے حوالے سے مودی حکومت کے اقدامات کی توثیق کو قانونی ماہرین اور عالمی مبصرین نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ متعصبانہ اور سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے 476 صفحات پر مشتمل متعصبانہ فیصلہ متنازعہ خطے کے مستقبل کے لیے بھارتی حکومت کے ایجنڈے کے مطابق قانونی اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر ایڈووکیٹ ناصر قادری نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ فاشسٹ حکومت کی طرف واضح جھکائو لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماعت کے دوران بھارت کے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی طرف سے دیئے گئے مشاہدات ان کی جانبدارانہ ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں، فیصلہ میں قانونی اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ قانونی ماہرین اور بین الاقوامی اداروں سے وابستہ افراد نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی صداقت اور اعتباریت پرخدشات کا اظہار کیا ہے۔

- Advertisement -

کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے ”اے پی پی“ کو بتایا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی اسمبلی کو ریاست جموں و کشمیر یا اس کے کسی حصے کی طرف سے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، لہذا نہ تو بھارتی پارلیمنٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ یا بھارت کے صدر کے پاس بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ قانونی یا آئینی سے زیادہ سیاسی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ملٹی ٹریک ڈائیلاگ ڈویلپمنٹ اینڈ ڈپلومیٹک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر ولید رسول نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے خلاف فیصلہ انصاف کی پامالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی مقامی عدالتیں نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور نہ ہی بین الاقوامی قانون، معاہدوں اور کنونشنز سے تجاوز کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تنازعہ کشمیر کو ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہیں، لہذا کشمیر پر مودی کی پالیسیوں کو بڑھانے کا بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ تنازعہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔

ناصر قادری نے سوالات اٹھائے اور کہا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں آئینی طور پر کام کررہا ہے اور کوئی حکم یا فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف سے لوگوں کے حق خودارادیت کو دبا نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بھارت کے فوجی قبضہ اور نام نہاد الحاق کو مستحکم کرنے کی ایک اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے آرٹیکل 370 اور35 سے سے متعلق بنیادی قانونی مسائل کو ایک طرف رکھ دیا اور ان کی اس طرح تشریح کی جو ان کے ذاتی اطمینان کے مطابق ہو۔

دریں اثناء سینئر حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ حالات میں غیر متوقع نہیں تھا جبکہ حریت کانفرنس کے ایک اور سینئر رہنما محمد یوسف نقاش نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ کشمیریوں کو آزادی کے لیے اپنے مقصد کے حصول سے نہیں روکے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاست دانوں نے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ یہ بھارت ہی تھا جسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ غداری ان کی طرف سے ہوئی ہے، ہم سے نہیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ بی جے پی 70 سال بعد اپنے سیاسی مقصد میں کامیاب ہوئی ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=419215

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں