اسلام آباد۔13فروری (اے پی پی):انگریزی ہو، اردو ہو یا فارسی، زبانوں کو ان کے درست تلفظ ،اتار چڑھائو اور لب و لہجے سے ادا کرنے والے ضیاء محی الدین کی منگل کو پہلی برسی منائی گئی۔نثر اور شاعری کو تکنیکی اور جمالیاتی اعتبار سے ضیاء سے بہتر کوئی نہ پڑھ سکا اور شاید کوئی اور ان جیسا پھر نہ آسکے ۔
سال 1933 کے گرم مہینے جون میں فیصل آباد میں جنم لینے والے دھیمے مزاج کے ضیاء محی الدین نے بچپن میں پہلا ڈرامہ والد خادم محی الدین کے زیر ہدایت ”دیوتا“کے نام سے کیا۔فنون و لطیفہ سے لگاؤ انہیں سات سمندر پار لے گیا، رائیل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ہالی وڈ کی کلاسیکی فلم’’ لارنس آف عریبیہ‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے برسوں تک پاکستانی اور برطانوی چھوٹی بڑی سکرینوں کے لیے اداکار، قرأت کار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر وابستہ رہے۔
محرّم الحرام کی مناسبت سے مرثیے پڑھے اور دستاویزی فلموں کو اپنی آواز سے نوازا۔ بلاشبہ ان کی آواز پاکستان کی تاریخ کی قیمتی ترین آوازوں میں سے ایک ہے۔ضیاءمحی الدین پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے پھر 2004 میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ڈائریکٹر مقرر کیے گئے۔ ضیا محی الدین کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ ملا ۔
ان کو ہمیشہ شکوہ رہا کہ ٹی وی ڈراموں میں الفاظ کی ادائیگیاں درست نہیں کی جاتیں ۔بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ٹی وی پر غلط تلفظ بولا جاتا ہے۔ انھوں نے ملک، مِلک اور مُلک کا حوالہ دیا اور کہا زبر زیر اور پیش سے لفظ اور مطلب بدل جاتا ہے۔ مختلف الفاظ جنھیں ہم عام طور پر اور ٹی وی ڈراموں میں غلط ادا کرتے ہیں، جیسے قبر، فکر، صبر وغیرہ، ہم کس کس کا رونا روئیں۔
انھوں نے بتایا کہ آخری بار انھوں نے سنہ 1981 میں پاکستانی ڈرامہ دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی خبریں دیکھتا ہوں ورنہ زبان کے بھونڈے پن کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا بہت کم ہوتا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ آپ کا اس کام کے ساتھ طویل عشق رہا ہے، اگر آپ پلٹ کر دیکھیں تو دل کے قریب کیا رہا؟انہوں نے کہا کہ مجھے بہت کم موقع ملا کہ اپنے کسی کام سے مطمئن ہوا ہوں۔
ہاں، ایسی ہیں دو چار جن پر مجھے ناز بھی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیمانے بدلتے رہتے ہیں، اپنی ہی نظروں میں اس پیمانے پر نہیں پہنچا جو میری توقع تھی۔ ارادہ کچھ بھی ہو لیکن عمل نہ ہو سکے تو اکثر ان دونوں چیزوں کا ملاپ نہیں ہوتا۔وہ کہتے تھے کہ پروفیشنلزم میرے نزدیک ایمان کی مانند ہے۔
میرا نہیں خیال کچھ بدلاؤ آیا ہے۔ سٹیج ایکٹنگ پروفیشنل ہے۔ پچھلے 30-40 سال میں فلم ہمارے ہاں ایک ملغوبہ ہوتا ہے، ہیروئن اور ولن ہوں گے، ناچ گانا ہوگا، ایک سائیڈ ہیرو ہوگا اور سائیڈ ہیروئین۔ ایک ناچ ایسا ہو ضرور جس میں لڑکی کی ساڑھی گیلی ہو جائے۔
لیکن اب میں نے دیکھا ہے کچھ نوجوانوں نے سینما میں دوسرے موضوعات پر بھی فلم بنانا شروع کی ہے۔ ضیا محی الدین 92 برس کی عمر میں گزشتہ سال 13 فروری کو کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد وفات پا گئے تھے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=439073