مبینہ زیادتی کیس کے حوالے سےسوشل میڈیا پر من گھڑت پراپیگنڈہ کیا گیا ،انتظامیہ پنجاب کالج

92
پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف سوش اینڈ کلچرل سٹڈیز کے زیر اہتمام گریجویٹ کانفرنس کا انعقاد

لاہور۔16اکتوبر (اے پی پی):مبینہ زیادتی کیس کے حوالے سےسوشل میڈیا پر من گھڑت پراپیگنڈہ کیا گیا،تمام تحقیقات ہوچکیں،کالج میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا،ہم حق اور سچ پر ہیں،مبینہ زیادتی کے حوالے سے جن بچیوں کے انٹرویوز سوشل میڈیا پر سامنے آئے وہ ہمارے ادارے کی بچیاں نہیں ہیں،بچے ہماری فیملی ہیں،بے بنیاد باتوں کے پیچھے لگ کر اداروں کیخلاف پراپیگنڈہ پر افسوس ہوا،والدین سے گزارش ہے بچوں کو پڑھائی کی طرف لے کر آئیں۔

ان خیالات کا اظہار لاہور میں ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز آغا طاہر اعجاز نے انتظامیہ کے ہمراہ بدھ کے روز یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کا اور پورے شہر کا مسئلہ ہے،تمام اداروں کے بچے ہمارے اپنے بچے ہیں،12اکتوبر کو جب واقعہ کا علم ہوا تو اسی وقت تحقیق شروع کر دی،جب ہمیں پتہ چلا تو ہم بھی غصے میں تھے، ہم نے پولیس کے ساتھ تحقیقات کے لیے تعاون کیا،حکومت کی طرف سے کالج کی رجسٹریشن ختم کر دی گئی،سوشل میڈیا دیکھ کر پولیس نے خود ہم سے رابطہ کیا،ساری ریکاڈنگ پولیس اپنے ساتھ لے گئی،آج تک وہ پولیس کے پاس ہے ،ہم نے بچیوں کے گھروالوں سے رابطے کئے ہمیں کچھ ایسا نہیں ملا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی گارڈ پولیس کی حفاظت میں ہے اور تحقیقات جاری ہیں،سوشل میڈیا پر آنے والی چیزوں اور خبروں میں تضاد ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے جدید دور میں فرانزک لیبز موجود ہیں،اگر کسی نے دیکھا ہے تو وہ ہمیں اطلاع دیں،والدین سے اپیل ہے کہ وہ بچوں کو پڑھائی کی طرف لے کر آئیں۔

انہوں نے کہاکہ کہ ہم بچوں سے ایک فیملی کی طرح ملتے ہیں،ہم اپنی خواتین سٹاف کی بھی قدر کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،نہیں چاہتے کہ بچے اس طرح سڑکوں پر گھو میں،والدین سے درخواست ہے بچوں کو تلقین کریں۔انہوں نے کہاکہ بچی سے مبینہ زیادتی کے حوالے سے ہفتے کی رات کو انسٹاگرام پر پوسٹ لگتی ہے،کہا گیا کہ جہاں حادثہ ہوا اس پارکنگ میں دروازے ہیں،ہماری پارکنگ میں کوئی دروازے نہیں ہیں،پولیس نے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھی اور آکر ہمارے سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا چلا کہ ایک دو طلبا یہ سٹوری لگا رہے ہیں،ہم نے ان سے کہا ہمیں اس بچی کا نام اور پتہ بتائیں تاکہ رابطہ کرسکیں،جب یہ کالج کی حدود میں آجاتی ہیں تو یہ ہماری بیٹیاں ہیں،ہم نے تمام باتیں سچائی کے ساتھ بیان کیں،یہ سرا سر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا۔آغا طاہر اعجاز نے کہاکہ ہم اساتذہ ہیں،کسی سٹوڈنٹ کا مستقبل خراب نہیں کرنا چاہتے۔

ڈائریکٹر پنجاب کالجز لاہور عارف چوہدری نے کہا کہ بہت ساری چیزوں نے ہمیں بھی کنفیوز ،کیا آپ کو بھی کر رہی ہیں،ہمارا یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے،ہمیں یہاں پڑھانے کا معاوضہ ملتا ہے،کسی چیز کو سیاسی کر دینا ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں،ہمیں چیزوں کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو بچی وہاں سے تعلق ہی نہیں رکھتی وہ کیسے انٹرویو میں ہمارے کالج کا نام لے سکتی ہے؟،یہ نہیں کہتا کہ کس کا قصور ہے،میں نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھیں،سوشل میڈیا پر8 سے10بچیاں ہیں جن کے انٹرویوز وائرل ہیں،ویڈیوز میں 95 فیصد بچیاں وہ ہیں جو اس کیمپس کی نہیں۔

عارف چودھری نے کہا کہ میں نے اس پروفیشن میں36سال گزارے ہیں،اگر میرے کیمپس میں بھی بچے گیٹ توڑ کر گھسیں گے تو گارڈز معاملے کو دیکھیں گے،کیمپس میں کچھ اساتذہ کو بھی دوسرے طلبا سے تھپڑ پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالم یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو بچا رہا تھا،میرا دفتر اس جگہ ہے جہاں سے بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ہے،ہم کوشش کر رہے تھے کہ اندر آنے والے بچے پر امن رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں،اگر یہ الزام ثابت ہو گیا تو میں یہ پیشہ چھوڑ دوں گا،اگر یہ واقعہ سچ ہوا تو اپنے چیئرمین کے ساتھ نہیں طلبا کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ کوئی اور بچی ہے تو مجھے اس کا بتا دیں وہ کہاں ہے؟، رپورٹ میں واضح ہے بچی کو سانس کا مسئلہ پہلے سے تھا،والدین نے کہا ہے بچی بیڈ سے گری ہے،یہ رپورٹ میں نے نہیں بنائی۔