شیخ حسینہ کی بھارت سے حوالگی کی کوششیں جاری رکھیں گے، ڈاکٹر محمد یونس

66

ڈھاکہ۔19نومبر (اے پی پی):بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی بھارت سے حوالگی کی کوششیں جاری رکھے گی لیکن بھار ت کی طرف سے اس حوالے سے معاہدے کی کسی خلاف ورزی کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں رہیں گے۔

بھارتی اخبار ’’دی ہندو ‘‘کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہیں عوامی لیگ کے بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔انہوں نے بنگلہ دیش میں بنیاد پرستی کے عروج اور اقلیتوں کے تحفظ کے فقدان کے بارے میں بھارتی میڈیا کی رپورٹس کو پروپیگنڈا قرار دیا ۔

ڈھاکہ میں اپنی رہائش پر دی ہندو کو خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر محمد یونس نے 100 دنوں میں اپنی حکومت کے ریکارڈ کا دفاع کیا اور بنیاد پرستی میں اضافے اور ملک کے ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں رپورٹس کو پروپیگنڈہ قرار دیا۔اس سوال پر کہ کیا شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی، انہوں نے کہا ہم کسی سیاسی جماعت بارے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے عوامی لیگ کی حریف جماعت بی این پی تھے بھی کہہ چکی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کا بھارت میں قیام کم از کم اس وقت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے لئے کوئی مسئلہ نہیں لیکن ان کی طرف سے بھارت میں قیام کے دوران اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ نے ایک آڈیو کلپ میں لوگوں سے مختلف شہروں میں مظاہرے کرنے اور مظاہروں کے دوران نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر اٹھائے رکھنے کو کہا تاکہ اگر پولیس انہیں روکے تو وہ یہ کہہ سکیں کہ بنگلہ دیش کی حکومت امریکا کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ بھارت میں قیام کے دوران ان کی یہ سرگرمیاں بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں۔انہو ں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا باقاعدہ مطالبہ کرنے کے لئے درکار قانونی اقدامات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مطلوب افراد کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے اور اگر بھارت اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا اور بنگلہ دیش کے مطالبے پر شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیشی حکام کے حوالے نہیں کرتا تو اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ اگرچہ عبوری حکومت قلیل المدتی ہے لیکن اس معاملے میں بھارت کے انکار کو ہمارے بعد آنے والی کسی بھی حکومت نظر انداز نہیں کرے گی۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں ہندووں کو نشانہ بنائے جانے کو بھارتی پروپیگنڈا قرار دیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا اور وہ اپنی اس تشویش کا اظہار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے 16 اگست کو فون پر ہونے والی گفتگو میں کر چکے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے بنگلہ دیش میں آزادی صحافت کو یقینی بنایا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مختلف حکومتو ں کی کارکردگی بارے فیصلے کا حق بنگلہ دیش کے عوام کو دیا جائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہو ں نے کہا کہ سارک کو بھرپورانداز میں فعال کیا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بارے ہمارا تصور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان تعلقات جیسا ہے۔