اسلام آباد۔1دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور ریاست کی رٹ قائم رکھنا اولین ترجیح ہے، پی ٹی آئی احتجاج اسلام آباد کا امن خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش تھی، فائنل کال کی آڑ میں خون بہانے کی مذموم منصوبہ بندی کی گئی، وفاق پر یلغار کے لئے صوبے کے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا، پی ٹی آئی کے فسادی ٹولے کو ملکی ترقی ہضم نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی اپنی ناکامی چھپانے کے لئے واضح طور پر جھوٹ بول رہی ہے، سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،
فیک ویڈیوز کا سہارا لیا جا رہا ہے، غیر قانونی مقیم افغان باشندے اور جرائم پیشہ افراد اس احتجاج میں شامل تھے، احتجاج کرنے والوں کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا جسے استعمال بھی کیا گیا، احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہید اور زخمی کیا گیا، مہذب دنیا میں کہیں بھی مسلح لوگوں کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی، جب بھی کوئی اہم موقع ہوتا ہے تب ہی احتجاج کی کال کیوں دی جاتی ہے؟ عوام نے پی ٹی آئی کی انتشار اور تشدد کی سیاست مسترد کر دی ہے، غیر قانونی احتجاج کے شرپسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اتوار کو یہاں سیکریٹری داخلہ کیپٹن (ر) محمد خرم آغا، آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی اور چیف کمشنر اسلام آباد چوہدری محمد علی رندھاوا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، پی ٹی آئی اپنی ناکامی چھپانے کے لئے جھوٹا بیانیہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پچھلے کئی احتجاج ہوئے جن میں مسلح شرپسند عناصر موجود تھے۔ اسلام آباد کا امن سبوتاژ کرنا ان کی سوچی سمجھی سازش کی، سنگجانی اور لاہور میں جلسے ہوئے مگر اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اسے فائنل کال کا نام دیا گیا۔
عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ جب بھی کوئی بیرونی وفد یا اہم موقع آتا ہے تو یہ اسی وقت احتجاج کی کال کیوں دیتے ہیں؟ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران بھی انہوں نے احتجاج کی کال دی، 2014ءمیں ان کے دھرنے کی وجہ سے چینی وفد کا دورہ سات ماہ تک التوا کا شکار رہا، انہوں نے پی ٹی وی پر حملہ کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے، ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر بہیمانہ تشدد کیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ ایک مائنڈ سیٹ تھا کہ ڈنڈے کے زور پر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستیں گھٹنے نہیں ٹیکتیں، ریاست جہاں اپنے باقی فرائض سرانجام دیتی ہے وہاں ریاست کا کام رٹ قائم رکھنا اور امن و امان برقرار رکھنا بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ فائنل کال کی آڑ میں قتل و غارت، خون بہانے اور لاشوں کی سیاست کی جائے گی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ مل کر کئی مرتبہ پریس کانفرنس کے دوران گزارش کی کہ یہ چاہتے ہیں کہ لاشیں گرائیں، یہ اچھی نیت سے نہیں آرہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے صوبائی حکومتوں کو امن و امان کے لئے پولیس ٹریننگ کروائی جاتی ہے، آنسو گیس شیل لے کر دیئے جاتے ہیں اور دیگر وسائل فراہم کئے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر قانونی احتجاج پر سرکاری وسائل خرچ کئے جائیں، ہائیکورٹ نے احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی،
ہم نے تحریک انصاف سے کہا کہ آپ بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملیں اور جگہ کا تعین کرلیں، ہم نے انہیں سنگجانی کے مقام کی بھی پیشکش کی مگر بشریٰ بی بی ریڈ زون جانے پر بضد تھیں۔ اس وقت بیلاروس کے صدر کا دورہ جاری تھا اور وہ ڈی چوک سے چند میٹر کی دوری پر تھے، افغان شہری بھی ان کے احتجاج میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، افغانستان ایک ہمسایہ اور دوست ملک ہے، ہم افغانستان اور اپنے ملک میں امن کے خواہشمند ہیں،
پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان شہری ان جتھوں کا حصہ بنتے ہیں، 37 افغان شہری پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل تھے، کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ شق ہے کہ آپ کسی افغان یا غیر ملکی شہری کو رکنیت دیں اور اپنے احتجاج میں شریک کریں؟ ان کے احتجاج میں جرائم پیشہ عناصر موجود تھے جو ریکارڈ یافتہ لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیرس، لندن، واشنگٹن ڈی سی سمیت مہذب دنیا میں احتجاج کے لئے جگہ کا تعین ہوتا ہے، کیا کسی احتجاج میں AK47 گن کبھی دیکھی؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ مظاہرین ڈنڈوں، غلیلوں، پتھروں، بنٹوں، گرینیڈ اور اسلحہ سے لیس ہوں؟ انہوں نے کہا کہ وفاق پر لشکر کشی کے لئے خیبرپختونخوا کے خزانے کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم نے احتجاج کے دوران ان سے 45 بندوقیں برآمد کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ہماری حفاظت کے لئے ہر وقت کوشاں رہتی ہے، پچھلی مرتبہ بھی ایک کانسٹیبل شہید ہوا اور ایک اس مرتبہ ہوا، انہوں نے کام شروع ہی خون خرابے سے کیا، رینجرز پر گاڑی چڑھا دی گئی، تین رینجرز کے اہلکار شہید ہوئے، کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟کیا ان کے یتیم بچوں کا حال کسی نے جا کر پوچھا؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مراد سعید جو سی ایم ہائوس کے پی کے میں روپوش ہے، مراد سعید اس احتجاج میں نہ صرف شریک تھا بلکہ اس کے ساتھ تربیت یافتہ جتھے بھی موجود تھے جنہیں تربیت دی گئی تھی کہ لاشیں گرانی ہیں اور فائرنگ کرنی ہے، یہ کس طرح کی سیاست ہے؟ اس نے وہاں پلان بنایا، اس کے ہمراہ اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ دہشت گرد موجود تھے۔
عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتجاج کو غیر قانونی قرار دیا، ہم نے انہیں مناسب جگہ کی بھی پیشکش کی لیکن یہ ریڈ زون جانے پر بضد تھے، ان کا مقصد کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لائیو ایمونیشن کی بالکل اجازت نہیں تھی، لائیو ایمونیشن اور اسلحہ انتشاریوں کے پاس تھا، اس حوالے سے پی ٹی آئی نے پروپیگنڈا کیا، انہوں نے غزہ اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی ویڈیوز اور جعلی تصاویر کو ڈی چوک کے مظاہرے سے جوڑا، ستم ظریفی تو یہ تھی کہ کرم ایجنسی میں مارے جانے والے لوگوں کی ڈیڈ باڈیز کی تصاویر لگا کر کہا گیا کہ یہ اسلام آباد کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتنے دن گذر گئے پی ٹی آئی کے پاس ایک ویڈیو یا تصویر موجود نہیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی اہلکار فائرنگ کرتا ہوا دکھائی دے۔ انہوں نے کہا کہ پولی کلینک اور پمز ہسپتالوں کی طرف سے بیانات آ چکے ہیں کہ کوئی اموات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ انتشاریوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کی ویڈیوز موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرم میں کہرام مچا ہوا ہے مگر ان کی تمام تر توجہ سیاست اور انتشار پر ہے، اگر آپ نے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا تو موقع سے بھاگے کیوں؟ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے گرفتار شرپسندوں نے کہا کہ ہمیں پیسے دیئے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج سے معیشت کو 192 ارب روپے کا یومیہ نقصان اٹھانا پڑا، جیسے ہی یہ صورتحال ختم ہوئی تو سٹاک ایکسچینج ایک لاکھ کی حد عبور کر گئی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مقصد لاشیں گرانا، امن خراب کرنا اور معیشت کو تباہ کرنا ہے، ان کے احتجاج میں کوئی عوامی مطالبہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے ان کی کال مسترد کی، وہ نہیں نکلے، خیبر پختونخوا کے عوام تعلیم، صحت اور سہولیات چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں ان کا صوبہ ترقی کرے، انہیں سہولیات میسر ہوں، وہ انتشار کی سیاست نہیں چاہتے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا سوچا سمجھا منصوبہ جب ناکام ہوا تو انہیں موقع سے فرار ہونا پڑا، شرمندگی اور خفت مٹانے کے لئے انہوں نے لاشوں پر سیاست کی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے ملتان جلسے میں سات لوگ جاں بحق ہوئے تھے اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی تقریر کئے بغیر وہاں سے نہیں گئے، یہ ان کی بے حسی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ شہریوں کے جنازوں پر اپنی تصاویر لگا دیتے ہیں، انہیں مایوسی اس لئے ہوتی ہے کہ یہ سیاسی طور پر ناکام ہو گئے ہیں اب یہ لاشیں گرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکاروں کو شہید کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا جھوٹا بیانیہ اب نہیں چلے گا، انہوں نے سیاسی ناکامی چھپانے کے لئے لاشوں پر سیاست شروع کی ہے، یہ جتنے مرضی آرٹیکل لکھوا لیں، ہم کھل کر سامنے آئیں گے اور بتائیں گے کہ کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں اسلحہ لے کر کسی دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کی اجازت ہے؟ یہ غیر قانونی پرتشدد احتجاج تھا جس میں انہوں نے بلا اشتعال فائرنگ کی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتہائی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا، کسی قسم کا کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں کسی سے زیادتی کی گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنی رٹ قائم رکھے گی، تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ پریس کانفرنس کے دوران احتجاج کی مبینہ ویڈیوز اور گرفتار شرپسندوں کے بیانات بھی میڈیا کو دکھائے گئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ انتشاری گروہ کی بلا اشتعال فائرنگ کے ہم نے ثبوت دے دیئے ہیں، شناخت بھی ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کو چیلنج ہے کہ وہ کسی اہلکار کی براہ راست فائرنگ کرنے کی ویڈیو دکھا دے۔ یہ سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز پھیلا رہے ہیں، ہم نے پورے علاقے میں جا کر دیکھا خون کا ایک قطرہ کہیں نظر نہیں آیا۔ ان کا جھوٹا پروپیگنڈا اپنی موت آپ مرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ، بہتان، الزام اور لاشوں کی سیاست سے عوام کو کچھ نہیں ملتا، اس سے صرف آپ کی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاستیں کمزور نہیں ہوتیں، ریاستیں صرف اپنے شہریوں کا خیال کرتی ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ صحافی مطیع اللہ کے حوالے سے کوشش ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں۔ صحافی ہمارے لئے قابل احترام ہیں، آپ کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ کسی گرفتار دہشت گرد کو میڈیا کے سامنے لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے پاس لائیو ایمونیشن نہیں تھا مگر احتجاجی مظاہرین کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا اور انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر بلا اشتعال فائرنگ بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ پرامن طریقوں سے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست طاقتور ضرور ہوتی ہے مگر ریاست نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے آخری حد تک صبر کا مظاہرہ کیا اور کوشش کی کہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موقع سے بار بار بھاگ جانا ہم نے نہیں سیکھا، پی ٹی آئی قیادت موقع سے فرار ہوئی، یہ ان کی بہت بڑی ناکامی ہے، اب یہ اگلے سال تک احتجاج کرنے کی جرات نہیں کر سکیں گے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ خوف کی فضاءبالکل نہیں ہے، ہر طرف امن و امان ہے، شرپسندوں کی شناخت کی جا رہی ہے، تقریباً پانچ ہزار لوگ ہیں جن کی تصاویر موجود ہیں اور ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔ ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تمام نمائندوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے ڈیجیٹل میڈیا کا قانون لایا جائے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرپسندوں نے اسلام آباد کے 52 پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا جبکہ مجموعی طور پر 192 اہلکار زخمی ہوئے جو صرف پتھر اور بٹنے لگنے سے نہیں زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر کو گولیاں بھی لگی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تفصیلی رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، اسلام آباد کا امن و امان برقرار رکھنا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اسلام آباد پولیس پوری طرح متحرک ہے، ان کا حوصلہ بڑھا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ جھوٹ ہر کوئی سننا چاہتا ہے سچ کوئی نہیں سننا چاہتا، ہم سچ بولتے رہیں گے۔