روس اور وسطی ایشیائی ممالک پاکستانی بندرگاہوں سے تجارت چاہتے ہیں،پاکستان سمندری تجارت کے حوالے سے گیٹ وے بن چکا ہے، وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ کا پریس کانفرنس سے خطاب

172

اسلام آباد۔1جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ روس اور وسطی ایشیائی ممالک پاکستانی بندرگاہوں سے تجارت چاہتے ہیں،کراچی پورٹ گہرا سمندر ہے جہاں بیس سے بائیس ہزار کنٹینرز پر مشتمل بڑے جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں،دنیا کی بڑی شپنگ کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں،وسطی ایشیائی ممالک نے پچھلے دس سال میں بہت زیادہ ترقی کی ہے ،ان کے پاس پورٹس نہیں،پاکستان کے راستے وہ اپنا مال بیچ سکتے ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا وزارت بحری امور کے اداروں نے گزشتہ سال 90 ارب روپے کا منافع کمایا،پچھلے سال کی نسبت منافع میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور آئندہ مالی سال مزید اضافہ ہوگا۔

پاکستان سمندری تجارت کے حوالے سے گیٹ وے بن چکا ہے،کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر ملک کی 95فیصد تجارت ہوتی ہے،دنیا میں پہلے تین،چار ہزار کنٹینرز کے جہاز ہوتے تھے اب بیس سے بائیس ہزار کنٹینرز پر مشتمل جہاز ہیں، زیادہ کنٹینرز سے جہازوں پر فریٹ ریٹ کم ہوگئے ہیں۔ہم اپنی پورٹس کو مزید گہرا کررے ہیں،پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں،بڑے بڑے ادارے پاکستانی پورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وسطی ایشیائی ممالک کا سستا مال یہاں سے جاسکتا ہے۔دنیا کی بڑی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی رکھتی ہیں ،ہم اس حوالے سے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزارت بحری امور بہت تندہی سے کام کررہی ہے،اداروں میں کام کی کافی گنجائش ہے

ہماری حکومت آنے سے قبل کراچی پورٹ کا منافع دو ارب تھا ،اب اس کا منافع دو ارب سے دس ارب روپے ہوگیا ہے،ہم مزید اس میں بہتری لارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورٹ قاسم کا منافع چالیس ارب روپے ہوگیا ہے، ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن میں دو گھنٹے بیٹھتا ہوں جہاں سب مسائل پر بات کی جاتی ہے۔ پاکستان کی پچانوے فیصد امپورٹ،ایکسپورٹ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے ہوتی ہے ، دنیا میں ریجنل ٹریڈ زیادہ ہوتی ہے،بدقسمتی سے ہمارے ہمسائیوں سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں،انڈیا،افغانستان اور ایران سے زیادہ زمینی تجارت نہیں ہوتی اس لیے زیادہ تجارت سمندری راستے سے ہے۔قیصر احمد شیخ نے پاکستان کی معیشت میں بحری شعبے کے اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بحری شعبے کا اوسط جی ڈی پی میں حصہ 7 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

وزارت بحری تجارت اور 400 ملین ٹن سالانہ ماہی گیری کی برآمدات کی نگرانی کرتی ہے۔ہچیسن پورٹس نے پاکستان میں 1 ارب ڈالر اور اے ڈی پورٹس نے آئندہ تین سالوں میں 330 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک اور روس اپنی تجارت کراچی بندرگاہ کے ذریعے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان خطے کا ایک اہم تجارتی مرکز بن جائے گا۔ مزید برآں پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد حصہ گوادر بندرگاہ سے ہوگا۔ وزارت نے چین کو گوادر فری زون میں صنعتیں منتقل کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ امریکی محصولات سے بچا جا سکے جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔گوادر بندرگاہ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں گہرائی کو 14.5 میٹر تک بڑھانا، سکیورٹی کے انتظامات کو مضبوط بنانا اور عوامی شعبے کی درآمدات کا 60 فیصد گوادر کے ذریعے لازمی بنانا شامل ہیں۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو آسان بنانے کے لیے بینک گارنٹی کی جگہ انشورنس گارنٹی متعارف کرانے پر کام جاری ہے۔بین الاقوامی تعاون میں ڈنمارک کے ساتھ 2 ارب ڈالر کا معاہدہ اور یورپی یونین و امریکہ میں پاکستانی ماہی گیری کی مصنوعات کی برآمدات شامل ہیں۔ پاکستان نے ہانگ کانگ کنونشن پر دستخط کر کے شپ بریکنگ کے معیارات کو بہتر بنایا ہے۔کراچی ڈاک لیبر بورڈ میں اصلاحات کی گئی ہیں جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے منافع میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کراچی پورٹ کی عالمی رینکنگ 84 سے بڑھ کر 61 ہو گئی ہے، اور آئل پئیر کی تعمیر نو کی جا رہی ہے۔اداروں کی بہتری کے لیے پاکستان کی پہلی کلاسیفکیشن سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، بحری آپریشنز کو پاکستان سنگل ونڈو کے ساتھ مربوط کیا گیا ہےاور قومی بحری و شپنگ پالیسیز کی تشکیل پر کام جاری ہے۔

پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن چار مزید بحری جہاز خریدنے کے عمل میں ہے تاکہ فریٹ کے اخراجات کم کیے جا سکیں۔وفاقی وزیر نے پاکستان کی خودمختاری پر زور دیتے ہوئے بحری شعبے کی معیشت میں اہمیت کو اجاگر کیا اور اسے ملکی ترقی کا اہم ذریعہ قرار دیا۔