فلسطینی بچوں کو پیش آنے والے مصائب و آلام انسانیت کے چہرے پر ہمیشہ کے لئے ایک سیاہ دھبہ رہیں گے ، پاکستانی مندوب

56
Munir Akram
Munir Akram

اقوام متحدہ۔24جنوری (اے پی پی):اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نےاسرائیل کو غزہ میں گھناؤنے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانے کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ15 ماہ تک جاری رہنے والی اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں فلسطینی بچوں کو پیش آنے والے مصائب و آلام انسانیت کے چہرے پر ہمیشہ کے لئے سیاہ دھبہ رہیں گے،اس وحشیانہ جنگ میں خاص طور سے بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی انسانی قانون، جنیوا کنونشنز، کنونشن آن رائٹس آف چائلڈ اور کنونشن برائے نسل کشی کی خلاف ورزی کی گئی ۔

پاکستانی مندوب نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں خوفناک انسانی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی وحشیانہ جنگ میں خاص طور سے بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی انسانی قانون، جنیوا کنونشنز، کنونشن آن رائٹس آف چائلڈ اور کنونشن برائے نسل کشی کی خلاف ورزی کی گئی۔ سلامتی کونسل کا یہ اجلاس روس، پاکستان، صومالیہ اور سیرالیون کی درخواست پرمنعقد ہوا جس کا مقصد غزہ میں بچوں کی حالت زار پر توجہ دینے کی کوشش تھا ۔پاکستانی مندوب نے سوال اٹھایا کہ کیا غزہ کی جنگ جس میں مارے جانے والے 46 ہزار سے زیادہ افراد میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے ، کوکوئی جواز فراہم کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں بچوں کے مصائب و آلام پوری انسانیت کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاہ دھبہ نہ صرف ان لوگوں کے چہرے پر ہے جنہوں نے اپنے بموں اور توپ خانے سے غزہ میں گھنائونے جرائم کا ارتکاب اور ان میں مدد کی بلکہ یہ سیاہ دھبہ ان لوگوں کے چہروں پر بھی ہے جنہوں نے 15 ماہ کے دوران ایسا ہونے دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ بعض ریاستوں کے موقف کی وجہ سے سلامتی کونسل اس معاملے میں کچھ نہ کر سکے، یہ سیادہ دھبہ ان لوگوں کے چہروں پر بھی ہے جو ہر روز اپنی کارروائیوں میں فلسطینی بچوں کو مارنے والی اسرائیلی افواج کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتے رہے اور یہ سیاہ دھبہ ہم سب کے چہروں پر بھی لگا ہے۔

پاکستانی مندوب نے اس موقع پر شہریوں کو نشانہ بنانے کی اسرائیل کی سوچی سمجھی پالیسی کی مذمت کی جس کے تحت اس حقیقت سے قطع نظر کہ مارے جانے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جنگی کارروائیاں جاری رکھی گئیں اوران جنگی کارروائیوں میں ہسپتالوں اور سکولوں پر حملے کئے گئے حتیٰ کہ سنائپرز بچوں کو نشانہ بناتے رہے، انتہا درجے کی اخلاقی گراوٹ بھی ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتی۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کو ہونے والے نقصان کا موازنہ غزہ کے لوگوں کی 15 ماہ کے دوران ہونے والی تباہی سے کیا جاسکتا ہے ، کیا اس کا موازنہ غزہ کے بچوں کو 15 ماہ سے درپیش مصائب و آلام سے کیا جاسکتا ہے؟

پاکستانی مندوب نے مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہدف بہت پہلے حاصل کیا جا سکتا تھا۔انہوں نے مغربی کنارے میں ہونے والی پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے اس کا نوٹس لینے کی اپیل کی ۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جنگ بندی برقرار رہے اور جنگ دوبارہ شروع کرنے کی اسرائیلی دھمکی پر عملدرآمد کو روکا جا سکے۔

سفیر نے بے انتہا مصائب و آلام سے دوچار غزہ کے مکینوں کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے، پانی اور خوراک کی کمی ہے اوران مسائل سے نمٹا جانا چاہیے،غزہ کی تمام سرحدی کراسنگز کو کھولنا چاہیے ، بین الاقوامی برادری اور سلامتی کونسل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو کی سرگرمیاں بحال ہوں ۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد فلسطینی عوام کو اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے کہا جا رہا ہےلیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ ان کے گھر باقی کہا ں ہیں ، ان کا تو سب کچھ تباہ ہو چکاہے، اس صورتحال میں ہمیں غزہ میں ہر تعمیراتی منصوبے کو فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اسرائیل کو اس کے مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کا ایسا وحشیانہ قتل دوبارہ نہ ہو ۔قبل ازیں، اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے 15 رکنی کونسل کو بتایا آج کا دن غزہ میں جنگ کے متاثرین کی مدد کا نادر موقع ہے ۔

انہوں نے اس موقع پر فلسطینی بچوں کی حالت زار کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مار دیا گیا ہے، ان کو بھوک کا سامنا ہے ، وہ یتیم اور معذور ہو چکے ہیں،کچھ فلسطینی بچے اپنی پیدائش کے بعد ایک سانس بھی نہیں لے سکے اور کچھ پیدائش کے دوران ہی اپنی مائوں کے ساتھ مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں 17 ہزار بچے ایسے ہیں جن کے خاندان جنگ میں مارے جا چکےہیں، غزہ میں حاملہ اور حال ہی میں بچوں کو جنم دینے والی ڈیڑھ لاکھ مائوں کو طبی سہولیات کی اشد ضرورت ہے ۔

ادھر،یونیسیف کے مطابق غزہ میں 10 لاکھ بچے ڈپریشن، پریشانی اور خودکشی کے خیالات جیسے ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں ، حقیقت میں اس جنگ سے فلسطینیوں کی ایک پوری نسل متاثر ہوئی ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ 15 ماہ کی جنگ سے غزہ میں بچوں کی تعلیم بھی شدید متاثر ہوئی اوران کی بڑی تعداد سکولوں کی عمارتوں سے ہی محروم ہو گئی ہے، جنگ کے دوران غزہ کے بہت سے مکینوں کو جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر نے کہا کہ ان چیلنجوں کے باوجود جنگ بندی نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنا ردعمل تیز کرنے کا موقع دیا ہے۔\932