17.7 C
Islamabad
منگل, فروری 25, 2025
ہومقومی خبریںسپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل...

سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت

- Advertisement -

اسلام آباد ۔24فروری (اے پی پی):سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت پیر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی ۔جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بینچ میں شامل ہیں۔

وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے،ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتا؟ عزیز بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کیلئے سویلنز کیلئے نہیں۔

- Advertisement -

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ سویلنز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہوگی کہ کون سویلین آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں، آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے، آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دئیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ آرٹیکل 245 کی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟وکیل نے جواب دیا کہ کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کیلئے کسی کی اجازت نہیں لینی پڑتی،

جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا، فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے۔جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ اگر فوجی اور سویلین مل کر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا،

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں اس کو واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون۔عزیز بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 8 کا ذیلی سیکشن 3 صرف آرمڈ فورسز کیلئے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ایف بی علی کیس اتنا اہم کیوں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا خیال ہے بنچ وکلاء کےدلائل کو مکس کر رہا ہے،

سلمان اکرم راجہ نے بھارت میں کورٹ مارشل کیلئے الگ فورم کی بات کی تھی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ میری نظر میں سلمان اکرم راجہ کا موقف مختلف تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت دلائل کی پابند نہیں آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کیا آرمی ایکٹ میں 2ڈی شق کو شامل کرنا ایکٹ آف پارلیمنٹ تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ پر حملہ ہو توٹرائل کہاں پر ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج بلانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عدالتیں چلانے کا اختیار بھی دے دیا جائے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے، ہم دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل اسکا سدباب کیوں نہیں کرتے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ تاریخ دیکھیں تو 1971 میں بھی فوجی تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے،

یہاں ایک سیاسی جماعت کسی لیڈر کے گھر، گورنر ہاؤس یا کسی تھانے پر حملہ نہیں کر رہی، یہاں فوجی تنصیبات پر ایک ہی وقت میں مختلف شہروں پر حملے کیے گئے، اگر یہی صورت حال رہی تو انارکی پھیلے گی، جو مستقبل کیلئے خطرناک ہوگی، ایک کہاوت ہے جس کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہو اسے ہر چیز کیل نظر آتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم کسی قانون کو آئینی تناظر میں پرکھتے ہیں، منفی یا مثبت ہونے کی بنیاد پر نہیں۔سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی ۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=565565

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں