اسلام آباد۔10اپریل (اے پی پی):کامسٹیک اور گلوبل نیٹ ورک فار نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز (عالمی نیٹ ورک برائے نظر انداز شدہ امراض) کے اشتراک سے ’’جدید دور میں ادویات کی دریافت اور ترقی‘‘ پر بین الاقوامی ہائبرڈ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ جمعرات کو یہاں جاری بیان کے مطابق کامسٹیک سیکرٹریٹ میں منعقدہ ورکشاپ میں دنیا بھر سے ادویات کی تحقیق اور ساختی حیاتیات کے ماہرین نے شرکت کی جن میں برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر پال ڈینی اور پروفیسر ڈاکٹر ایمکے پول شامل تھے۔ ورکشاپ کا مرکزی موضوع ان نظر انداز شدہ امراض خاص طور پر لیشمینیا کے لیے ادویات کی دریافت کے جدید طریقے تھے جن میں ساختی حیاتیات اور مصنوعی ذہانت کے کردار پر خصوصی گفتگو کی گئی۔
پروفیسر پال ڈینی جو رائل سوسائٹی آف بیالوجی اور برطانیہ ہائر ایجوکیشن اکیڈمی کے فیلو ہیں، نے لیشمینیا کی عالمی صورتحال کا ذکر کیا جو اب 90 سے زائد ممالک میں موجود ہے۔ انہوں نے موجودہ علاج کی محدودیت کا ذکر کرتے ہوئے اس مرض کے لیے مؤثر، سستے اور عالمی سطح پر ہم آہنگ حل کی ضرورت پر زور دیا۔ بائیو فزیکل سائنسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ایمکے پول نے آرٹی فیشل انیٹلی جنس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے پروٹین کی ساخت میں ہونے والی جدید پیش رفت اور اس کے ذریعے نئے ادویاتی اہداف کی شناخت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اے آئی تحقیق کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ہے مگر تجرباتی تحقیق کی اہمیت ابھی بھی برقرار ہے۔
انہوں نے انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل و بیالوجیکل سائنسز کراچی کے ساتھ مشترکہ تحقیق کا ذکر بھی کیا جس میں سمندری گرم پانی کے وینٹس سے حاصل شدہ انزائمز کو لیشمینیا کی تشخیص میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ افتتاحی خطاب میں کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے عالمی اشتراک کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے ڈرہم یونیورسٹی اور گلوبل نیٹ ورک فار نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز کے ساتھ کامسٹیک کی شراکت داری کو اجاگر کیا جو6ممالک پر مشتمل ایک کنسورشیم ہے۔
اس کا مقصد تعلیم، جدت اور مساوی سائنسی تبادلے کے ذریعے لیشمینیا سے نمٹنا ہے۔ اس کنسورشیم کو 2024 میں برطانیہ میڈیکل ریسرچ کونسل کی جانب سے’’آؤٹ سٹینڈنگ ٹیم امپیکٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ ورکشاپ میں مختلف جامعات کے طلبہ اور فیکلٹی ممبران نے بھی شرکت کی۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=580252