فیصل آباد۔ 25 اپریل (اے پی پی):پاکستان ہر سال110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا اور افریقہ درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے ایک بوجھ ہے لہٰذادالوں کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ناگزیر اورزرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ دالوں کی نئی اقسام کی کاشت وقت کی اہم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مونگ اور ماش دالیں ہماری روزمرہ خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور غذائی اعتبار سے ان دالوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔دالوں میں 20 فیصد سے زائد پروٹین ہوتی ہے اور ان میں آئرن کے علاوہ غذائی ریشہ بھی وافر مقدار میں پایا جاتاہے۔
ان خصوصیات کے پیش نظر انکو گوشت کاسستا نعم البدل کہا جاتا ہے۔ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے دالوں کے پودوں کی جڑوں میں مفید بیکٹیریا ہوتے ہیں جن پرنوڈیولز بنتے ہیں جو فضاسے نائٹروجن کو فکس کر کے پودوں کو مہیا کرتے ہیں۔
جڑیں گلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں لہٰذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔دالیں کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔
اس ضمن میں کماد،چاول اور کپاس کے آبپاش علاقہ جات میں وٹوں پر کاشت سے کاشتکار بھرپور منافع کما سکتے ہیں۔مزید برآں دالیں بہار اور خریف دونوں موسموں میں کاشت کی جا سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دالوں کی فصل سے جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوارمیں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بہاریہ فصل پر خریف کی نسبت کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہوتا ہے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=587630