صحت کے شعبے میں عالمی عدم مساوات اہم ترین مسئلہ ہے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف

Prime Minister Muhammad Shahbaz Sharif
Prime Minister Muhammad Shahbaz Sharif

ریاض۔28اپریل (اے پی پی):وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے صحت کے شعبے میں عالمی عدم مساوات کو اولین اور سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحت کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر و کم ترقی یافتہ ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے،پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہے،حکومت ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کےلئے پرعزم ہے ۔ وہ اتوار کو عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے موقع پر صحت کے شعبہ میں تفریق کے خاتمہ کے موضوع پر مباحثہ سے خطاب کر رہے تھے ۔

مباحثہ سے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گبرائسس، کنگ سلمان ہیومنٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر کے سپروائزر جنرل ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ اوربل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی نمائندہ انیتا زیدی نے بھی خطاب کیا۔۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں صحت کے شعبہ میں عالمی عدم مساوات بڑا مسئلہ ہے، کووڈ 19 وبائی مرض نے صحت کی سہولیات کی فراہمی اور ویکسینوں کی تقسیم کے معاملے میں گلوب سائوتھ اور گلوب نارتھ کے مابین بڑے پیمانے پر موجود خلا کو بے نقاب کیا ۔

وزیراعظم نے کہا کہ 2003 میں جب وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تب انہیں کینسر کا مرض لاحق ہوا وہ اس کے علاج کیلئے نیویارک گئے تو وہاں ہزاروں ڈالر علاج پر لگے تب انہوں نے سوچا کہ اتنا مہنگا علاج برداشت کرنے کی لوگ صلاحیت نہیں رکھتے تھے، خوش قسمتی سے جب وہ صحت یاب ہوکر پاکستان آئے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو اس وقت پنجاب میں کڈنی کینسر اور جگر کے امراض کے علاج کیلئے ادارے بنانے پر کام شروع کیا۔ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنے عوام کو صحت کی فراہمی کا عزم کیا۔ بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنے صوبہ میں ہیپاٹائٹس کے مرض کے علاج کی سہولیات پنجاب کے دور دراز علاقوں میں بھی فراہم کیں۔ سٹی سکین جیسی سہولیات دیں، لاہور میں جنوبی ایشیا کا بہترین کڈنی ہسپتال بنایا، چین اور بھارت جا کر انتہائی مہنگا علاج کرانے والوں کو یہاں یہ سہولت میسر آئی ۔

وزیراعظم نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی نے عالمی منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا ہے، پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہوتا ہے تاہم ماحولیاتی آلودگی میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ اس کی ریڈ لسٹ میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2022 میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں شدید ترین سیلاب آیا جس نے زراعت، انفراسٹرکچر کو تباہ کیا، 100 ارب روپے سے زائد بحالی پر خرچ ہوئے، اس وقت بیرونی امداد کی ضرورت تھی جبکہ مہنگے قرضے ملے، کیا ترقی پذیر ممالک ایسی صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ 2011 میں پنجاب میں ڈینگی کا مرض سامنے آیا تو دنیا بھر سے ماہرین جمع کرکے اور دن رات ایک کرکے اس سے نجات حاصل کی اور لوگوں کی جانیں بچائیں۔

مخیر حضرات، سول سوسائٹی، طبی ماہرین اور عام آدمی سمیت سب کو ایک چھت تلے جمع کیا۔ ڈینگی کے سدباب کیلئے باہر سے مشینری منگوائی، انتہائی کم نرخ پر ڈینگی ٹیسٹ کی سہولت دی، اجتماعی کاوشوں سے 14 کروڑ آبادی کے حامل صوبہ میں صرف 250 اموات ہوئیں، کم وسائل کے باوجود ہم نے یہ کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ کنگ سلمان فائونڈیشن صحت کے شعبہ میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔وزیرِ اعظم نے خادم الحرمین شریفین، سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے صحت کے شعبے کے حوالے سے اقدامات کی خصوصی پزیرائی کی۔

انہوں نے کہا کہ سعودی فرمانروا اور سعودی ولی عہد اپنے اقدمات سے دکھی انسانیت کی مدد کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم نے بل گیٹس فاؤنڈیشن کے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے اقدامات پر شرکاء میں موجود بل گیٹس کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ ایسے موقع پر اگر میں بل گیٹس کے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے اقدامات کا ذکر نہیں کرتا تو یہ منصفانہ بات نہ ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ بِل گیٹس فاؤنڈیشن کی فراخدلی ہے کہ ہر سال پاکستان میں لاکھوں بچوں کو پولیو ویکسین کی فراہمی یقینی بناتی ہے ۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سال 2022 میں، جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب نے تباہی برپا کی تو بل گیٹس فاؤنڈیشن اور حکومتِ پاکستان نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بچوں کو انسداد پولیو ویکسین فراہم کی ۔انہوں نے کہاکہ مجھے پوری امید ہے کہ اگر ہم اسی طرح اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تو جلد پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا ۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گبرائسس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول کیلئے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ زچہ و بچہ کی شرح اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 54 ممالک اس وقت بھی ایس ڈی جیز اہداف کے حصول میں بہت پیچھے ہیں جبکہ چار ارب90 کروڑ افرادکو بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ دیگر شرکاء نے کہا کہ دنیا میں تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں جو صحت کے شعبہ کی ضروریات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔