آئینی طریقہ سے اقتدار سے ہٹائے جانے والاشخص ریاست کو بلیک میل کر رہا ہے،ریاست کے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے، وزیر دفاع

235

اسلام آباد۔19اکتوبر (اے پی پی):وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ قانونی اور آئینی طریقہ سے اقتدار سے ہٹائے جانے والاشخص ریاست کو بلیک میل کر رہا ہے، اقتدار کی جنگ بعد میں بھی لڑی جاسکتی ہے، ریاست کے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں حکمران اشرافیہ کی جانب سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں آج اسی کا کڑوا پھل کاٹ رہے ہیں ۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سردار اختر مینگل کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں کہا کہ سردار اختر مینگل نے جو کچھ اس ایوان میں کہا ہے اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، جو زخم ریاست کے وجود سے رس رہا ہے اس پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، قوم نے جن کو وقار اور توقیر دی ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریاست کے وجود کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈیں، اختر مینگل نے ایسے معاملات اٹھائے ہیں جو ہماری ریاست کے جسم پر رستے ہوئے زخم ہیں، انہیں نظرنداز کرنا مہلک ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں کچھ ایسے اقدامات پورے زور و شور کے ساتھ کئے گئے، اگر ان تمام اقدامات کو ماضی میں دیکھا جاتا تو حالات یہ نہ ہوتے۔ یہ بڑا گھمبیر اور ہماری ریاست کا مسئلہ ہے، یہ کسی فرد واحد یا کسی ایک شخص کا نہیں ساری قوم کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ایسے معاملات ہیں جن پر ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گیارہ بارہ سال پہلے سوات میں جو کچھ ہوا اب وہاں پر ایک مرتبہ پھر وہی کچھ شروع ہوگیا ہے۔ ایک بات خوش کن ہے کہ سوات کے لوگ بغیر کسی سیاسی اختلاف کے بازاروں میں نکل آئے۔ جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے ۔

سوات اور بعض دوسرے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آگ سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے، وزیراعظم کو یہ مسئلہ اعلیٰ سطح پر حل کرنے کے لئے فوری توجہ دینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم یہ بوجھ اپنے کندھوں سے کب اتاریں گے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ کسی بھی صوبے یا وفاق کی حکومت کو اپنے صوبے کے عوام کی خواہشات اور دکھ درد شیئر کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کا سب کچھ سیلاب کی نذر ہوگیا ہے۔

بلوچستان میں بے چینی کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے، اس کا حل ہمارے ان بھائیوں کے پاس ہے، یہ معاملات بیٹھ کر حل ہونے چاہئیں۔ اس ملک میں اقتدار کی ایک جنگ جاری ہے، اس اسمبلی نے قانونی اور آئینی طریقہ سے ایک حکومت کو ہٹایا مگر وہ شخص ریاست کو بلیک میل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ ماضی میں بویا اس کا کڑوا پھل کاٹ رہے ہیں۔ تمام حکمران اشرافیہ نے غلطیاں کی ہیں، ہر ایک سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں عدلیہ اور فوج کی مداخلت ہوتی رہی، ماضی میں فاش غلطیاں کی گئیں۔ اختر مینگل نے جو کچھ کہا ہے اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، جو زخم رس رہا ہے اس پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کی جنگ بعد میں بھی لڑی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پہلے بلوچستان میں 600 لاشیں گرائی گئیں اور اس کے ایک سال بعد لیاقت باغ کے واقعہ میں لاشیں گریں۔چھوٹے صوبے لاشیں اٹھا کر خاموشی سے چلے گئے لیکن انہوں نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی جماعت اور حکومتی اتحاد کی طرف سے کہتا ہوں کہ سکیورٹی کے معاملات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم وفاق کو اکٹھا رکھیں۔ اختر مینگل نے جن خدشات کا ذکر کیا ہے وہ حقیقی ہیں۔ پاکستان کی چاروں اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ سرحدوں کے ذریعے منسلک ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو یہ مسئلہ اعلیٰ سطح پر حل کرنے کے لئے فوری توجہ دینا ہوگی۔

قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر کہا کہ نفرت کو دنیا کی کوئی ایٹمی طاقت بھی ختم نہیں کر سکتی،نفرت اس ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،ہمیں اس مقام تک نہ دھکیلا جائے جہاں سے ہم واپس نہ آسکیں۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ 14 جولائی کو زیارت، مستونگ اور 17 اکتوبر کو خاران میں پیش آنے والے واقعات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں حکومتیں بدلتی رہی ہیں مگر بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہوئے، ہم یہ افسوس ناک صورتحال قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرتے رہتے ہیں مگر ہماری حالت نہیں بدلتی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم پی ٹی آئی کے اتحادی تھے تو اگست 2018ء میں ہم نے لاپتہ افراد کی فہرست دی تھی ۔انہوں نے کہا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نہ مارا جائے۔ انہوں نے ملتان نشتر ہسپتال کی چھت سے ملنے والی لاشوں کے حوالے سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے۔