لاہور۔18مئی (اے پی پی):ہیٹ ویو سے بچے و بوڑھے افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہیٹ اسٹروک سے بچا جا سکتا ہے، حکومتی ہدایات پر مریضوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔جنرل ہسپتال لاہور کے شعبہ میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مقصود نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں جاری حالیہ گرمی کی لہر کی وجہ سے شعبہ ایمرجنسی جنرل ہسپتال لاہور میں ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ افراد میں بچوں اور بوڑھے افراد کی تعداد زیادہ ہے ,ہیٹ اسٹروک یا کو لگنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال میں نمکیات کی کمی سے پٹھوں کا کھچائو، پانی کی کمی سے شدید تھکاوٹ کا ہونا اور گرمی سے بے ہوش ہو جانا شامل ہیں، اس دوران کئی زندگیاں چلی جاتی ہیںاور زیادہ تر ایسے لوگ خطرے میں ہوتے ہیں جن کا زیادہ وقت دھوپ میں گزرتا ہے جیسے بچے، کھلاڑی اور مزدور وغیرہ یا پھر ایسے لوگ جن کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے جیسے کہ بزرگ شہری اور چھوٹے بالخصوص شیر خوار بچے شامل ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو ہر سال گرمیوں میں ایک بڑا مسئلہ گرمی دانوں کا بھی ہوتا ہے لیکن ہیٹ اسٹروک یا لو لگنا گرمیوں سے متعلق سب سے خطرناک مسئلہ ہے، قدرت نے جسم میں غدود کا ایسا نظام وضع کیا ہے جس سے گرمیوں میں پسینے کا اخراج ہوتا ہے اور درجہ حرارت کنٹرول میں رہتا ہے، بیرونی درجہ حرارت میں تغیر انسانی جسم پر مختلف ردعمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 30ڈگری سینٹی گریڈ جسم کے لیے بہترین اور مناسب درجہ حرارت ہوتا ہے، 33ڈگری پر پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے، 35ڈگری سینٹی گریڈ پر جسم میں حرارت کو منظم کرنے کا نظام متحرک ہوجاتا ہے، 38ڈگری سینٹی گریڈ پر خون کا جلد کی جانب بہاو زیادہ ہوجاتا ہے، 39ڈگری پر پسینے کے غدود بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 40ڈگری پر غنودگی اور 41ڈگری درجہ حرارت جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدید گرمی میں اکثر جسم اپنے درجہ حرارت کو مزید کنٹرول نہیں کر سکتا تو درجہ حرارت تیزی سے بڑھ جاتا ہے، پسینے کا خود کار نظام بھی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت 15 منٹ کے اندر اندر 106 فارن ہائیٹ یا اس سے زیادہ بڑھ سکتا ہے اور بروقت ممکنہ ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں اکثر اوقات مستقل معذوری یا موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر مقصود نے بتایا کی ذہنی تناو، کمزوری، تیز بخار، پسینے کا نہ آنا، لو لگنا، بہت زیادہ پسینہ آنا، خشک گرم اور سرخ جلد، بے ہوش ہو جانا، متلی یا الٹی، دل کی دھڑکن تیز ہونا، پیٹ، بازووں، ٹانگوں یا پٹھوں میں درد، یا اینٹھن ،گرمی سے تھکاوٹ، چڑچڑاپن، آنکھوں کی پتلی کا پھیل جانا، آنکھوں کی پتلی کا سکڑ جانا، سر درد، چکر آنا، پیاس لگنا اور پیشاب کا نہ آنا وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کے لیے فوری طور پر مقامی ہسپتال منتقل کرنا چاہیے لیکن ہنگامی طبی خدمات کے پہنچنے تک متاثرہ شخص کا درجہ حرارت ممکنہ طور پر کم کرنے کی کوشش کریں،مریض کو ٹھنڈی اور سایہ دار جگہ پر لے جائیں جہاں ہوا کا گزر مناسب ہو یا پنکھے کا استعمال کریں، ٹانگوں کو سر سے اونچا رکھیں، بیرونی لباس اتار دیں، جلد از جلد ٹھنڈے پانی سے غسل کرائیں اور جسم پر ٹھنڈے گیلے کپڑے رکھیں۔
خاص کر سر، گردن، بغلوں اور کمر پر، پانی اور نمکیات والی مشروبات (او آر ایس، شکنجبین یا گلوکوز) دیں۔ ڈاکٹر مقصود نے کہا کہ ہیٹ اسٹروک سے بچا کے لیے احتیاط کریں، ٹھنڈی اور سائے والی جگہوں پر رہیں، بلا ضرورت دھوپ میں جانے سے پرہیز کریں، ایسی جسمانی مشقت اور سرگرمی سے اجتناب کریں جس سے درجہ حرارت زیادہ ہونے کا احتمال ہو، بہت زیادہ پانی پئیں، ہر پندرہ سے بیس منٹ میں نمکیات اور کاربوہائیڈریٹ والی مشروبات پئیں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں،دھوپ میں سر ڈھانپ لیں اور چشمہ پہنیں، کھلے جوتوں اور چپلوں کا استعمال کریں، متوازن خوراک کا استعمال کریں، زیادہ پروٹین والی غذا کا استعمال کم کردیں کیوں کہ اس سے میٹا بولک ہیٹ بڑھ جاتی ہے،چائے، کافی، کولڈ ڈرنکس اور الکوحل کے استعمال سے پرہیز کریں،بچوں اور بزرگوں کا خاص خیال رکھیں، بچوں کو پارک کی گئی گاڑی میں بالکل نہ چھوڑیں، وقفے وقفے سے اپنی کلائی پر ٹھنڈا پانی ڈالیں اس سے رگوں میں خون کی ٹھنڈک میں مدد ملے گی، غنودگی کی صورت میں آرام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پسینہ زیادہ آئے، تھکن زیادہ محسوس ہو، دل کی دھڑکن زیادہ ہو جائے، جلد کی رنگت زرد ہو جائے، سر درد اور چکر آئیں، متلی اور قے کا آنا، پیٹ یا پٹھوں میں کھچاو ہو ، بے ہوشی طاری ہو یا جسم کا درجہ حرارت 104 فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو جائیتو فوری طور پر ڈاکٹر سے کب رجوع کرنا چاہیے کیونکہ بروقت طبی امداد فراہم کر کے مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مقصود نے کہا کہ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ہیٹ ویو سے بچائو بارے آگاہی کی آڑ میں ایک خوف کا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے ، گرمی کے موسم کی آمد کو ایک ایمرجنسی صورتحال سے مشابہت دے دی جاتی ہے ،ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس سے شہری خوف زدہ ہو جاتے ہیں جو قوت مدافعت میں کمی کا باعث بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گرمی یا سردی اللہ تعالی کی طرف سے بنائے گئے موسم ہیں بس ہمیں کسی بھی موسم میں اعتدال برتنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=598337