بھارت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گڑھے میں گر رہا ہے، قوم کی بہادری کے باعث پاکستان ان گڑھوں سے نکل چکا ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا سیمینار سے خطاب

112

اسلام آباد۔16دسمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ بھارت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گڑھے میں گر رہا ہے، قوم کی بہادری کے باعث پاکستان ان گڑھوں سے نکل چکا ہے، بھارت میں ہندوتوا میں اضافے کے ساتھ ساتھ خطرناک اسلحہ کے حصول سے خطے کا امن دائو پر لگ گیا ہے، بھارت نے ایف اے ٹی ایف اور اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی مخالفت کی ہے اور پاکستان پر دہشت گردی کے بلا جواز الزامات لگائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے سانحہ پر پوری قوم سوگوار ہوئی، انسان میں مختلف وجوہات کی بناءپر انتہا پسندی جنم لیتی ہے، انسان کی فطرت میں فوبیاز اور محبت و نفرت شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام و ممالک کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے تاہم نسل نو ان غلطیوں کو نئے انداز سے دہراتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں انسانیت سکھ اور امن کی طرف جائے گی، ظلم کا تعلق ہتھیاروں سے ہے، جتنے بڑے ہتھیار ہوں گے اتنا بڑا قتال ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں ہتھیاروں سے متعلق غلط معلومات کے باعث لاکھوں افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ جب کسی قوم میں تعصب پیدا ہو جائے تو اس کی سوچ مخصوص نکتہ پر اٹک جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں شمولیاتی ادارے رکھنے والے ممالک نے ترقی کی جبکہ تقسیم پیدا کرنے والے ممالک ترقی کے عمل میں پیچھے رہ گئے، صنعتی انقلاب کے دور میں بھی صرف شمولیاتی اداروں والے ممالک نے ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ مغلوں کے دور میں ہندوستان خوشحال خطہ تھا، برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارتی تعلقات قائم کرکے ہندوستان پر قبضہ کیا، مغلوں کے دور میں ملک میں مثالی مساوات قائم تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان رہنمائوں کو تحریک آزادی کے دوران احساس ہوا کہ ہندوستان کے سیاسی رہنما مسلمانوں کو حقوق نہیں دیں گے اس کے بعد 1906ءمیں مسلم لیگ وجود میں آئی، 1875ءمیں آریہ سماج تحریک چلی، 1915ءمیں ہندو سبھا اور ہندو مہاسبھا تحریکیں چلیں، 19ویں صدی کے آغاز پر مسلمانوں کو احساس ہوا کہ وہ ہندوئوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، اہم مسلمان رہنمائوں نے طے کیا کہ پاکستان بننا چاہئے، قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد بھی بھارت میں مقیم مسلمانوں کا خیال رکھا کیونکہ انہیں بھارتی حکومت سے مسلمانوں کے حوالہ سے خدشات تھے۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارت میں فسادات کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، ان کی دکانیں جلائی گئیں، کاروباری طور پر تباہ کرکے انہیں مالی طور پر کمزور کیا گیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارت میں سیاسی طور پر مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے لوگوں کو نمائندگی دی جاتی ہے جو مسلمانوں کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت دہشت گردی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کے گڑھے میں گر رہا ہے جس سے پاکستان نکل آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی شمولیت یقینی بنائی گئی جبکہ اس کے برعکس بھارت نے مکمل لاک ڈائون کیا، مزدوروں نے طویل سفر پیدل کیا، بھارتی حکومت نے ان کی حالت زار پر توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ۔19 میں ناکامی کے باوجود مودی کی حکومت بھارت میں تعصب کو ہوا دے کر اپنی مقبولیت برقرار رکھ رہی ہے، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر انسانوں میں تفریق نہیں پیدا کرنی چاہئے، کسی کو دبائو ڈال کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں مزید تیزی آئے گی، ہندوستان یہ تصور کر رہا ہے کہ وہ ہندوتوا کے ساتھ سپر پاور بن سکتا ہے تاہم اس کے پاکستان، سری لنکا، نیپال اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں، بھارت پاکستان میں افغانستان کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارتی مصنف خشونت سنگھ نے اپنی کتاب بھارت کے خاتمہ میں لکھا ہے کہ بھارت اپنے ہاتھوں خود ختم ہو گا، پاکستان اسے ختم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں تعصب پسندی بڑھ رہی ہے، ہندو شرپسندوں کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ فسادات کے بعد انہیں کچھ نہیں ہو گا اور انہیں رہائی مل جائے گی، سانحہ گجرات کے بعد بھارتی عدلیہ کے ججوں کو بدلا گیا، کسی مجرم کو سزا نہیں ملی، گزشتہ سال 5 اگست کے معاملے پر بھارتی سپریم کورٹ نے فوری سماعت نہیں کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوتوا کے پورے بھارتی معاشرے پر اثرات ہیں، بھارت میں امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی کونے میں رہنے والے ہندو بھارت آ سکتے ہیں تاہم بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنی شناخت کا حساب دینا ہو گا، آسام رجسٹریشن ایکٹ سے بنگالی مسلمان متاثر ہوئے ہیں، اس سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہو یا بھارت وہاں ہونے والی بدامنی کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں، بھارت کسی بھی بدامنی کی صورت میں پاکستان پر الزام تراشی کرتا ہے، بھارت کی سیکولر ملک ہونے کی قلعی کھل چکی ہے، سیکولر سوچ کی بناءپر انتہا پسند ہندوﺅں نے گاندھی کو قتل کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارت خطرناک راہ پر گامزن ہے، بھارت چین مخالف بیانیہ پیش کر کے مغربی ممالک سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش حاصل کر رہا ہے، بھارت فاشسٹ ملک ہے، ہمیں دنیا میں بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بڑھ رہا ہے، اسرائیل نے جس طرح فلسطین میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا ہے، بھارت اسی طرز پر کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری سے خطے میں خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے، بھارت میں ہندوتوا میں اضافے کے ساتھ ساتھ خطرناک اسلحہ کے حصول سے خطے کا امن داﺅ پر لگ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا کردار غیر ذمہ دارانہ ہے، پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان نے بھارتی حملہ پسپا کرتے ہوئے ان کا جہاز گرا دیا اور ان کے پائلٹ کو گرفتار کیا جسے بعد میں بھارت کے حوالے کیا گیا۔ بھارت نے ایف اے ٹی ایف اور اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی مخالفت کی ہے اور پاکستان پر دہشت گردی کے بلا جواز الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی جبکہ میزبانی کا درس دینے والے یورپی ممالک ایک پناہ گزین کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک اپنے تجارتی مفادات کے باعث بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تضادات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستحکم معیشت کے ذریعے ہی ہم دنیا میں اپنا مقام حاصل کرتے ہیں، پاکستان میں ماضی میں معیشت کے بارے میں غیر ذمہ داری کا مظٓہرہ کیا گیا، کرپٹ افراد نے ملک کو لوٹا، غلط فیصلے کر کے ملک کو نقصان پہنچایا گیا، پاکستان مشکل وقت سے نکل چکا ہے اور اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔