گلگت۔7اکتوبر (اے پی پی):قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی مختلف ایسوسی ایشنز کے ممبران نے کہا ہے کہ جامعہ کی طر ف سے فیسوں میں اضافہ یونیورسٹی کے مالی چیلنجز کو مدنظر رکھ کر انتہائی مجبوری کے عالم میں کیاگیاہے،ممبران نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کےجامعات کیلئے مختص بجٹ فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ہارڈ ایریاز کی جامعات کیلئے الگ بجٹ فارمولہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتہ کے روزیونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن،آفیسر ایسوسی ایشن اور لوئر اسٹاف ایسوسی ایشن کے ممبران نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے گزشتہ چند دنوں سے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کی جانب سے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے بارے میں بات کی اور کہاکہ پریس کانفرنس کے ذریعے معاشرے کے ذمہ دار افراد سمیت طلبا کے والدین تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ جامعہ کی طر ف سے فیسوں میں اضافہ یونیورسٹی کے مالی چیلنجز کو مدنظر رکھ کر انتہائی مجبوری کے عالم میں کیاہے
،اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن،آفیسر ایسوسی ایشن،لوئر اسٹاف ایسوسی ایشن کے ذمہ داران نے بتایا کہ اس وقت یونیورسٹی کی جانب سے فیسوں میں اضافہ کرنے کے باوجود بھی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیسیں پاکستان کی دیگر پبلک جامعات سے کم ہیں،اگر فیسوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہیں تو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت ملک بھر کی دیگر پبلک جامعات کی ویب سائٹ کا وزٹ کریں حقائق آپ کے سامنے آئیں گے،حالیہ دنوں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی جانب سے 2020 اور 2021 سیشن کے طلبا کے سمسٹر فیسوں میں 25 فیصد اضافے کیاگیا ہے
،اضافے کے بعدان دو سیشن کے فی سمسٹر اوسط فیس 33000ہزار سے 40000ہزار روپے ہےجبکہ کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے 53000ہزار سے 60000ہزار روپے فی سمسٹر فیس ہے۔یونیورسٹی نے فیسوں میں اضافہ بھی وفاقی حکومت کی طرف سے بجٹ میں 2018سے اضافہ نہ کرنے پر مجبوری میں کیاہےکیونکہ یونیورسٹی کا آپریشنل بجٹ 1200 ملین روپے سے بڑھ کر 1500 ملین روپے ہو گیا ہے،
یونیورسٹی نے بجٹ میں اضافے سمیت اضافی گرانٹس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمہ دراوں کو اپیل بھی کی ہے، یونیورسٹی اس وقت سخت معاشی مشکلات سے دو چار ہے۔پریس کانفرنس میں یونیورسٹی کو درپیش مالی چیلنجز کی وجو ہات بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہائرا یجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مختص بجٹ میں پانچ فیصد کمی،سب کیمپسز کی مین کیمپس میں ضم ہونے سے سو ملین روپے کے اضافی بوجھ،فیس ڈیفالٹرز اور ڈراپ آؤٹ کی وجہ سے فیس کی آمدنی میں کمی،ہائرایجوکیشن سے کوئی اضافی فنڈزنہ ملنا،گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں اور کالجوں کے طلباء کی فیڈرل بورڈ میں منتقلی کی وجہ سے ایکسٹرنل امتحانات کی آمدنی میں شدید کمی،
جی بی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہ ملناہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو اس وقت 300 ملین خسارے کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ایک سوال کے جواب میں یونیورسٹی کے سینئر فیکلٹی ممبران و انتظامی افسران نے کہاکہ گزشتہ دنوں یونیورسٹی سے بے دخل کئے جانے والے تمام طلبا کو یونیورسٹی ڈسپلنری ایکشن کمیٹی کے سامنے اپیل کرنے کا حق ہے،اپیل کے بعد اگر متعلقہ طلبا اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دوبارہ تعلیم کو جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ یونیورسٹی کا با قاعدہ اپنا ضابطہ اخلاق ہےاور طلبہ وطالبا ت یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس ضابط اخلاق پر عمل داری کے حوالے سے حلف لیتے ہوئے خود بھی دستخط کرتے ہیں اور ان کے والدین بھی دستخط کرتے ہیں کہ ان کے بچے اس پر عمل درآمد کریں گے،
جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک غریب علاقہ ہے،مگر یونیورسٹی کو درپیش مشکلات سے نکلنے کے لیے جامعہ کے پاس فیسوں میں اضافے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بی ایڈ ایک سالہ پروگرام کے امتحانات، بی اے بی ایس سی کے دو سالہ پروگرامات کے پرائیویٹ امتحانات،ماسٹر کے دو سالہ پروگرام کو بھی ختم کیاجس سے جامعہ کو آمدنی آجاتی تھی۔
ہائیرایجوکیشن کمیشن نے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے متبادل بجٹ یونیورسٹی کے لیے مختص نہیں کیاجس سے جامعہ کو مزید مالی مشکل سے دوچار ہونا پڑا۔ان سب کے باوجود بھی یونیورسٹی ضرورت مند اور ہونہار طلباء کے لیے زیادہ سے زیادہ اسکالرشپ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔اس وقت یونیورسٹی تقریباً 3000 طلباء کو مختلف وظائف دے رہی ہے۔یونیورسٹی طلباء کو ہر ممکن تعاون فراہم کررہی ہے اور مزید وظائف کی فراہمی سمیت بہترین تعلیم وتحقیقی سہولیات فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹی کام کررہی ہے۔