لاہور۔31مئی (اے پی پی):لاہور ہائیکورٹ نے دائر درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ حراستی موت اور تشدد کی روک تھام ایکٹ 2022 کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا جائے، ایف آئی اے اس ایکٹ سے متعلق تحقیقات پر خصوصی دائرہ اختیار رکھتی ہے لہذا پولیس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کرے۔ عدالت نے تشدد، اموات اور عصمت دری کے تمام مقدمات ایف آئی اے کو منتقل کرنے کا بھی حکم دے دیا۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے درخواست گزار ثریا بی بی کی درخواست پر 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے
۔عدالت نے فیصلے میں باور کرایا کہ اعتراف جرم یا ثبوت حاصل کرنے کے مقصد سے کسی ملزم پر کسی بھی قسم کا تشدد کرنا سختی سے ممنوع ہے، ایکٹ 2022 کے نفاذ کے معاملے کو باضابطہ طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ میں لایا جائے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ یہ مسئلہ وفاقی سیکرٹری وزارت داخلہ کے ذریعے وفاقی وزیر، وزارت داخلہ اور حکومت پاکستان کو بھی پیش کیا جائے، 2022 کے ایکٹ پر تیزی سے مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور عمل درآمد میں مزید تاخیر کو روکنا ہے۔عدالت نے تحریری فیصلہ حکم دیا ہے کہ فیصلے کی ایک نقل نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھیجا جائے جبکہ پولیس حراست میں تشدد، موت یا عصمت دری سے متعلق شکایت فوری طور پر ایجنسی کو بھیجا جائے۔