حکومت کواداروں کے بد عنوان عوامل کی قیمت چکانا پڑتی ہے، ان اداروں میں اصلاحات وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے، اے جی پی آر میں اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں،جلد وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن سرداراحمد یار ہراج کا وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

95

اسلام آباد ۔ 11 جولائی (اے پی پی) وزیراعظم معائنہ کمیشن کے چیئرمین سرداراحمد یار ہراج نے کہا ہے کہ حکومت کو بد عنوان عوامل کی قیمت چکانا پڑتی ہے جو اے جی پی آر اور دیگر اداروں کے اہلکار کرتے ہیں، ان اداروں میں اصلاحات وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے، اے جی پی آر میں اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں جو جلد وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پاکستان وزیر اعظم عمران خان کا ویژن ہے، اسی کی روشنی میں اداروں میں اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن اب تک 24 اداروں سے متعلق اپنی سفارشات بھجوا چکا ہے جس پر عملدرآمد بھی شروع کردیا گیاہےـ انہوں نے کہا کہ اے جی پی آر ایک اہم ادارہ ہے جو تمام سرکاری خریداری کا مرکزی ادارہ ہے اس ادارے کی بے جا رکاوٹوں کے باعث مہنگی خریداری کرنا پڑتی ہے جو قومی خزانے کا پیسہ ہوتا ہے، اصلاحات کے ذریعے تمام عمل کو شفاف اور ڈیجیٹل سسٹم سے منسلک کرنے اور بے جا رکاوٹوں کے ذریعے خریداری مہنگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہےـوزیراعظم معائنہ کمیشن کے چیئرمین احمد یار ہراج نے کہا کہ ہم 24 انسپیکشن مکمل کر چکے ہیں، جن کی رپورٹس پیش کر دی گئی ہیں اور عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جس ادارے کے لئے یہ پریس کانفرنس کرنا پڑی وہ ہر ادارے اور ہر فرد کی دلچسپی کا ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جو اخراجات کرتی ہے لامحالہ وہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپیڈ منی سسٹم کے ذریعے سرکاری خریداریوںکی مد میں اخراجات بہت زیادہ کئے گئے اور خواہ مخواہ کے اعتراضات لگا کر معاملات کو الجھانا معمول رہا ہے، ٹیکسز ایک طرف سرکاری خریداری مہنگے داموں کی جاتی ہے اور ماضی میں حکمرانوں نے اس بگاڑی کو سلجھانے کی کوئی کوشش تک نہیں کی۔ سردار احمد یار ہراج نے کہا کہ حکومت اپنے ہی ملازمین کی کرپشن کے پیسے ادا کر رہی ہوتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے جو وعدہ کیا ہے کہ ہم اداروں کو بگاڑ سے نکال کر شفافیت اور بہتری کی جانب لے کر جائیں گے، اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس محکمہ پر بھی ہاتھ رکھیں اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ انہوں نے کہاکہ وفاق میں اے جی پی آر تمام سرکاری خریداریوں کو دیکھتا ہے اور صوبوں میں بھی اے جی پی آر کے صوبائی دفاتر معاملات کو دیکھتے ہیں اور بدقسمتی سے بگاڑ درست نہیں کیا گیا اور سپلائرکے ساتھ محکمے بھی اس بگاڑ کے ساتھ ڈھلتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی منتخب حکومت ہے جس نے اس معاملے میں ہاتھ ڈالا ہے اور چند ماہ میں ایک ایسا نظام بنا کر دیں گے جس سے بگاڑ بھی دور ہو گا اور شفافیت بھی آئے گی جس کے لئے ہم نے سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سفارش کی ہے کہ وزیراعظم کے ڈیجیٹل پاکستان وژن کے تحت اب ہر خریداری کا عمل عوام کے سامنے ہو اور اس تمام عمل کو قواعد و ضوابط کے تحت اور مقررہ مدت کے اندر مکمل کیا جانا چاہیے، تاخیری حرب استعمال کر کے بدعنوانی پر اکسانے اور اخراجات بڑھاے کے عمل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بگاڑ صرف بلوں کی ادائیگیوں تک محدود نہیں بلکہ اداروں اور ان کے ملازمین کے واجبات کی ادائیگیوں میں بھی یہ بگاڑ منتقل کیا گیا ہے اور بوگس بلوں کے ذریعے اخراجات بڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 21 اور گریڈ 22 کی آسامیاں ہمیشہ وزیراعظم کی منظوری سے پر کی جاتی ہیں لیکن اے جی پی آر میں یہ پوسٹیں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر دی جا رہی ہیں، اس عمل میں بھی شفافیت لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی کہا گیا ہے کہ ایسے افسران کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دس سال کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہمیں یہ قرضے نہ لینا پڑتے جو ماضی میں لئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انہی معاملات کو سدھارنا چاہت ہیں۔