خیبر پختونخوا کا سالانہ ترقیاتی پروگرام کل 1505 منصوبوں پر مشتمل ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 1794 ارب روپے ہے ،سرکاری حکام

182
اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کی دنیا بھر میں 114 ملین افراد کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہنگامی امداد کی اپیل

پشاور۔ 21 اکتوبر (اے پی پی):خیبر پختونخوا کا سالانہ ترقیاتی پروگرام کل 1505 منصوبوں پر مشتمل ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 1794 ارب روپے ہے ۔سرکاری حکام کے مطابق ضم شدہ اضلاع کا سالانہ ترقیاتی پروگرام 686 منصوبوں پر مشتمل ہے جن کی تخمینہ لاگت897 ارب روپے ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق خیبرپختونخوا میں سمگلنگ ، بھتہ خوری، ہنڈی حوالہ، جعلی دستاویزات سازی سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈان جاری ہے اور اس سلسلے میں سول انتظامیہ ، سکیورٹی فورسز ، انٹیلی جنس اداروں اور وفاقی اور صوبائی محکموں کے درمیان کوآرڈنیشن کا ایک موثر نظام قائم کیا گیا ہے ۔ سرکاری حکام کے مطابق بھتہ خوری اور دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے ۔

سرکاری حکام کے مطابق صوبہ بھر میں تمام غیر قانونی سرگرمیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے منظم انداز میں کاروائیاں کی جارہی ہیں جبکہ ملاکنڈ ڈویژن اور نو ضم شدہ اضلاع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پروفائلنگ بھی شروع کر دی گئی ہے۔سرکاری حکام کے مطابق دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق نئے ضم اضلاع میں بھی امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔سرکاری حکام کے مطابق صوبے کی آمدن کا 94 فیصد دارومدار وفاقی محصولات پر ہے جبکہ 6 فیصد صوبے کی اپنی آمدن ہے ، سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام سے صوبے کی آبادی میں اضافہ ہو اہے لیکن این ایف سی میں آبادی کے تناسب سے صوبے کے شیئر میں اضافہ نہیں ہوا۔ انضمام کے بعد این ایف سی میں خیبرپختونخوا کا حصہ 19.6 فیصد بنتا ہے تاہم اس وقت صوبے کو 14.6 فیصد مل رہا ہے ۔

سرکاری حکام کے مطابق صوبائی حکومت پن بجلی ، زراعت ، معدنیات ، صنعت اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دے کراپنی آمدن کو بڑھانے کیلئے نہ صرف پرعزم ہے بلکہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات بھی اٹھا رہی ہے۔علاوہ ازیں صحت و تعلیم کے شعبے صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں اور ان دو شعبوں پر خاطر خواہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق خطے میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری بد امنی سے خیبرپختونخوا خصوصا قبائلی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، امن و امان کی مخدوش صورتحال نے یہاں کی معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ، صوبے کو اب بھی امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے اور وہاں پر تعمیر و ترقی کیلئے حکومت کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ،سابقہ فاٹا کے انضمام کے وقت وفاق کی طرف سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہو رہے ،

اس کے علاوہ این ایف سی ، پن بجلی کے خالص منافع اور تیل و گیس کی رائلٹی کی مد میں صوبے کو پورے فنڈز نہیں مل رہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے ، وفاق سے صوبے کے پورے شیئرز نہ ملنے کی وجہ سے صوبے بالخصوص ضم اضلاع کا ترقیاتی شعبہ متاثر ہو ا ہے ۔