کراچی۔23جنوری (اے پی پی):زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ کو 100 بیسز پوائنٹس بڑھا کر 17فیصد کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ پیر کو یہاں جاری پریس ریلیز کے مطابق زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کا دباؤ برقرار ہے اور مسلسل وسیع البنیاد ہے۔ اگر یہ دباؤ اسی طرح قائم رہا تو توقع سے زیادہ طویل مدت میں مہنگائی کی بلند توقعات پر منتج ہوسکتا ہے۔ ایم پی سی نے زور دیا کہ مہنگائی کی توقعات پر قابو پانا اور مستقبل میں پائیدار نمو کو تقویت دینے کے لیے قیمتوں کے استحکام کے مقصد کو حاصل کرنا بے حد ضروری ہے ۔گزشتہ اجلاس کے بعد سے ایم پی سی نے خاص طور پر تین اہم معاشی پیشرفتیں نوٹ کیں، نومبر اور دسمبر میں کچھ اعتدال کے باوجود مہنگائی بدستور بلند ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قوزی مہنگائی میں پچھلے دس ماہ سے مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔
مزید یہ کہ حالیہ پلس سرویز سے صارفین اور کاروباری طبقے کی مہنگائی کی توقعات میں اضافہ ظاہر ہوتا ہے جبکہ بیرونی شعبے کے لیے قریب مدتی چیلنجز جاری کھاتے کے خسارے میں پالیسی کی بنا پر آنے والے سکڑاؤ کے باوجود بڑھے ہیں،نئی رقوم کے آمد کے فقدان اور قرضے کی جاری واپسی کے نتیجے میں سرکاری ذخائر مسلسل کم ہوئے ہیں۔ قریب تا مختصر مدت میں عالمی معاشی اور مالی حالات مجموعی طور پر غیریقینی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی معیشت کے لیے ملے جلے مضمرات ظاہر ہوتے ہیں۔ عالمی طلب میں متوقع سست روی پاکستان سمیت ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر کے منظر نامے پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
دوسری جانب اجناس کی عالمی قیمتوں میں کچھ اعتدال سے مہنگائی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور عالمی مالی حالات میں بہتری بھی بیرونی شعبے کو کچھ سہارا دے سکتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام عوامل کو ملحوظ رکھا جائے تو کمیٹی نے اپنا نومبر 2022ء کا یہ تجزیہ دہرایا کہ مہنگائی کو نیچے لانے کی مختصر مدتی لاگت اسے راسخ ہونے کی اجازت دینے کی طویل مدتی قیمت سے کم ہے۔ ایم پی سی نے ملکی غیریقینی پر قابو پانے اور قریب مدتی بیرونی شعبے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کثیر فریقی اور دو طرفہ پارٹنرز کے ساتھ رابطے رکھنے پر بھی زور دیا ۔
موصول ہونے والے بلند تعدّد کے ڈیٹا سے مسلسل پالیسی کی سختی اور 2022 ء میں سیلاب جیسے بیرونی دھچکوں کے جواب میں معاشی سرگرمی میں وسیع البنیاد اور پائیدار اعتدال کی عکاسی ہوتی ہے۔ دسمبر میں گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات اور سیمنٹ کی فروخت کے حجم میں سال بسال اور ماہ بہ ماہ بنیادوں پر خاصی کمی ہوئی۔ پیداوار کے محاذ پر نومبر2022 ء میں ایل ایس ایم کی پیداوار میں 5.5 فیصد کمی ہوئی۔ آگے چل کر فرموں کی جانب سے پیداوار میں کٹوتی اور رسدی مشکلات ایل ایس ایم کی نمو میں مزید کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔ مزید برآں، کپاس کی آمد کے تازہ ترین اعدادوشمار اس فصل کی توقع سے کم پیداوار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ صورت ِحال گنے کی پیداوار اور حالیہ سیزن میں گندم کی بوائی میں پیش رفت کے متعلق اطمینان بخش رپورٹس کے باوجود زرعی شعبے کے امکانات کو ممکنہ طور پر کمزور کر سکتی ہے۔ ان پیش رفتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زری پالیسی کمیٹی سمجھتی ہے کہ اس سال اسٹیٹ بینک کی بیس لائن نمو میں کمی کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔مالی سال 23 ء کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ لگ بھگ 60 فیصد کمی کے ساتھ 3.7 ارب ڈالر پر آ گیا۔ اس خاطر خواہ کمی کا سبب درآمدات میں تیزی سے کمی تھی، جو سخت پالیسی اور کچھ انتظامی اقدامات کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ درآمدات میں سکڑا ؤسیع البنیاد تھا ، اور غذائی اور پیٹرولیم گروپس کے علاوہ تمام اہم گروپس میں کمی درج کی گئی۔
پیٹرولیم درآمدات میں 17.4 فیصد (توازن ِ ادائیگی ڈیٹا) اضافہ ہو گیا، جس کے نتیجے میں ان کا حصہ (مجموعی درآمدات میں) مالی سال 22ء کی پہلی ششماہی کے 23.7 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں 34.1 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس پس منظر میں زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ توانائی بچانے کے اقدامات پر مؤثر عملدرآمد اور پیٹرولیم مصنوعات کی مناسب پرائسنگ توانائی کی درآمدات میں اشد ضروری کمی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ درآمدات میں 18.2 فیصد کمی کے فائدے کی جزوی تلافی برآمدی وصولیوں اور ترسیلات زر میں کمی سے ہو گئی۔ جاری کھاتے کے خسارے میں کمی سے قطع نظر سرکاری مالی رقوم کی وصولی میں تاخیر، قرضوں کی واپسی اور جاری سیاسی بے یقینی کے سبب بیرونی شعبہ دباؤ میں ہے۔
اس ضمن میں زری پالیسی کمیٹی کی رائے میں بے یقینی میں کمی اور کثیر طرفہ اور دو طرفہ رقوم کی آمد میں تعطل ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ای ایف ایف سہولت کے تحت زیر التوا نویں جائزے کی تکمیل ضروری ہے۔مالی سال 23ء کے پہلے چار مہینوں کے دوران مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 1.5 فیصد ہو گیا جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 0.9 فیصد تھا، جبکہ بنیادی فاضل کم ہوکر جی ڈی پی کا 0.2 فیصد تک رہ گیا، جو گذشتہ برس 0.3 فیصد تھا۔مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران ایف بی آر کے ٹیکسوں میں 17.0 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ بجٹ میں متوقع نمو سے کم ہے۔ مالی سال 23ء کی دوسری ششماہی کے دوران اقتصادی سرگرمیوں میں متوقع مزید سست روی اور درآمدات میں کمی ٹیکس وصولی کی نمو کی رفتارکے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ موجودہ مالیاتی موقف زری سختی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا، ابھرتے ہوئے کُلی معاشی چیلنجوں کے پیش نظر، مالیاتی پالیسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ منصوبہ بندی کے تحت استحکام حاصل کرے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ زرِ وسیع کی نمو مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں کم ہو گئی جس سے بنیادی طور پر بیرونی کھاتوں پر دباؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ملکی قرضہ بڑھ گیا جس کی وجہ نجی شعبے کے قرض میں موسمی اضافہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک وجہ بیرونی مالکاری میں تخفیف سے میزانی قرض گیری کا بڑھنا بھی ہے۔
نجی شعبے کے قرضے کے تفصیلی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ صارفی قرضے واپس کیے گئے اور جاری سرمائے اور معینہ سرمایہ کاری قرضوں میں اعتدال آیا۔قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی کی سطح حالیہ مہینوں میں کچھ اعتدال کے باوجود بدستور بلند رہی۔ اکتوبر میں عمومی مہنگائی سال بسال 26.6 فیصد تھی جبکہ نومبر میں یہ معمولی سی کم ہو کر 23.8 فیصد اور دسمبر میں 24.5 فیصد تک چلی گئی۔ غذائی مہنگائی میں اضافہ اس مسلسل بلند مہنگائی کا اہم سبب ہے۔ قوزی مہنگائی بھی قوزی اشیا خصوصاً پائیدار اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے بڑھ گئی ۔
ایندھن کی قیمتوں میں کمی اور ایندھن کی لاگت کے چارجز میں کمی سے حالیہ مہینوں کے دوران توانائی کی مہنگائی معمولی سی کم ہوئی ہے تاہم مستقبل میں ان کے رویّے کے حوالے سے بے یقینی اور مستقبل قریب میں متوقع ایڈجسٹمنٹ مہنگائی کے منظرنامے کے لیے اضافے کا خطرہ بنی رہی۔ سروے کی حالیہ لہروں میں بھی اس تشویش کی عکاسی کرتے ہوئے مہنگائی کے بارے میں صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی توقعات میں پہلے سے اضافہ ہوا ہے، خواہ قلیل مدت کی بات ہو یا درمیانی مدت کی۔ زری پالیسی کمیٹی کی رائے ہے کہ دسمبر 2024ء تک مہنگائی کا وسط مدتی ہدف 5 تا 7 فیصد حاصل کرنے کے لیے مہنگائی کی توقعات کو قابو کرنا اہم ہے، اور اس کے لیے زری اور مالیاتی پالیسی کی مربوط کوششیں درکار ہیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=347597