اسلام آباد۔24اپریل (اے پی پی):چین پاکستان اقتصادی راہداری (منصوبہ ) کے تحت رواں سال پاک چین شراکت داری کومزید دوام ملے گا اور دوطرفہ تعاون کے سنگ میل طے ہوں گے ،دوسرا مرحلہ عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتا ہے جس میں درجنوں منصوبوں پر کام کیا جارہاہے۔ سی پیک اتھارٹی حکام نے اے پی پی کو بتایا کہ اگلے مرحلہ کے تحت چار اہم شعبوں میں پیشرفت کی جائے گی جن میں پہلا شعبہ صنعت سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دیگر شعبوں میں زراعت، سماجی اور معاشی شعبہ کی ترقی اور گوادر نیو سٹی شامل ہیں۔
پاک-چین سٹریٹجک شراکت داری دن بہ دن مضبوطی کی راہ پر گامزن ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ شراکت داری عالمی اور خطے بھر میں نہایت اہمیت کی حامل ہے جبکہ یہ مستقبل میں مزید مستحکم ہو جائے گی۔پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت توانائی کے شعبے میں بڑی پیش رفت جاری ہے، منظور شدہ 22 توانائی کے منصوبوں میں سے 9 منصوبے مکمل ہوگئے۔حکام کے مطابق جب سی پیک کے تحت بجلی کے تمام منصوبے مکمل ھو جائیں گے تو 17000 میگاواٹ بجلی سے پاکستان انرجی میں خود کفیل ھو گا،حال ھی میں کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ھوئے چینی سفیر نے بھی سی پیک کی پیش رفت پر تسلی کا اظہار کیا تھا۔
موجودہ حکومت نے سی پیک کے دائرے کو بہت وسیع کیا ہے تاکہ منصوبے سے تمام افراد اور شعبے فائدہ اٹھا سکیں۔سی پیک اتھارٹی حکام کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جو 22 توانائی کے منصوبے منظور کیے گئے تھے ان میں سے 9 توانائی کے منصوبے مکمل کر لیے گئے۔منصوبوں کا مقصد بجلی کی ضروریات پوری کرنا ہے، مکمل شدہ 9 منصوبوں سے 5 ہزار 320 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ان منصوبوں میں کوئلے کے 13 سو 20 میگا واٹ کے ساہیوال، پورٹ قاسم اور چائنا حب منصوبے شامل ہیں۔ 660 واٹ کا اینگرو تھر اور 400 میگا واٹ قائد اعظم سولر پارک منصوبے بھی مکمل ہوچکے ہیں۔مزید 4 ہزار 470 میگا واٹ کے 8 منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں، ان کے علاوہ کوہالہ، تھر اور آزاد پٹن سمیت 5 منصوبے بھی پائپ لائن میں شامل ہیں۔مذکورہ منصوبوں کی تکمیل سے ملکی ضروریات پوری ہونے سمیت بجلی برآمد بھی کی جاسکے گی، سی پیک منصوبوں میں توانائی کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
حکام نے بتایا کہ اس وقت چار اکنامک زونز پر تیزی سے کام جاری ہے،رشکئی اکنامک زون میں 2000 سے زائد ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں نے سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔چین اقتصادی رہداری کے تحت خیبر پختونخوا کے اہم منصوبے رشکئی خصوصی اقتصادی زون میں تیزی سے کام جاری ہے ۔یہ زون تیز رفتار صنعتکاری کے فروغ کے لئے سنگ میل ثابت ہو گا۔ یہ زون ایک ہزار ایکٹر اراضی پر مشتمل ہوگا۔ وفاقی حکومت نے اس زون کو تین مرحلوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ 210 میگاواٹ بجلی تین مرحلوں میں حکومت فراہم کرے گی۔ اس زون کے لئے حکومت نے 1203 ملین روپے گیس کی مد میں رکھے ہیں۔
تین مرحلوں میں تعیمر کیا جائے گا پہلے مرحلے میں 247 ایکڑ، دوسرے مرحلہ میں 355 ایکڑ اور تیسرے مرحلے میں 399 ایکڑ زمین ڈویلپ کی جائے گی۔ اس زون میں 80 فیصد مقامی لوگوں روز گار فراہم کیا جائے گا،ر شکئی خصوصی اقتصادی زون ایئرپورٹ ، ڈرائی پورٹ ، ریلوے اسٹیشن ، موٹر وے اور شاہراہوں کے توسط سے پاکستان کے تمام صوبوں سے منسلک ہے۔ یہ زون کے پی کے پانچ بڑے اضلاع نوشہرہ ، مردان اور صوابی ، چارسدہ اور پشاور کے سنگم پر واقع ہے۔ منسلک اضلاع میں زرخیز زمین ہے ، جو مختلف قسم کی نقد آ ور فصلوں اور سبزیوں کے اگانے کے لئے موزوں ہے۔
ر شکئی خصوصی اقتصادی زون میں 400 سے زائد صنعتیں شامل ہوں گی جن میں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات ، گھریلو سازو سامان ، عام تجارتی سامان ، الیکٹرانکس اور بجلی کے آلات ، آٹوموبائل اور مکینیکل سامان شامل ہیں۔ نوشہرہ ، مردان اور پشاور میں کئی دوا ساز کمپنیاں موجود ہیں۔معاشی زون میں ہزاروں خواتین شامل ہوں گی جو روزانہ اپنے گھروں اور اپنے کام کے مقام کے درمیان سفر کرتی تھیں۔ ر شکئی خصوصی اقتصادی زون دراصل مقامی خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
اسی طرح علامہ اقبال اکنامک زون فیصل آباد میں بھی تیز رفتاری سے کام جاری ھے۔ یہ صنعتی منصوبے پاکستان کی معیشت کے لئے گیم چینجر ثابت ھو نگے، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس میں400 سے زیادہ صنعتیں قائم ہونگی جن سے 250,000 افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ترجیحی خصوصی اقتصادی علاقہ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی (اے آئی آئی سی) میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور مختلف ممالک کی ممکنہ منڈیوں کی تلاش کے ذریعے سے پاکستان کی برآمدات کے حجم کو بڑھانے کے لئےحکومت نے مختلف ممالک میں پاکستانی مشنز کےتجارتی حکام کو ہدایت جاری کیں ہیں۔
گوار پورٹ اب اپریشنل ھو چکا ھے۔ ایسٹ بے ایکسپرس وے مکمل ھو چکی ھے جو گوادر کو مکران کوسٹل ھائی وے سے ملاتی ہے۔حکام نے بتایا کہ سی پیک کے تحت پورے ملک میں تقریباً 1100کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھایا جاچکا ہے،اب تک 850کلومیٹر سڑکیں زیر تعمیر ہیں ۔اسی طرح ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پاکستان چین اقتصادی راہداری کے سلسے میں زیر تعمیر موٹروے کے اہم حصے پر تعمیراتی کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اب تک این ایل سی نے کام کے اعلیٰ معیار کو یقینی بناتے ہوئے تزئین و آرائش کا کام آ خری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔
چار رویہ مغربی راہداری کی کل لمبائی 285کلو میٹر ہے جسے پانچ مختلف پیکجیز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیکج ون پر کام تکمیل سب سے پہلے متوقع ہے پیکج ون کی کل لمبائی 55کلو میٹر ہے جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب یارک سے شروع ہوکر رحمانی خیل پر ختم ہوتا ہے۔این ایل سی نے تعمیراتی کام کے بین الاقوامی معیارکو برقرار رکھتے ہوئے انفراسٹکچر کا تمام کام مکمل کیا ہے اس میں سڑک کی تعمیر، یارک اور عبدل خیل کے مقامات پر دو انٹرچینج، چھ انڈر پاس،چار پل، رہائشی سہولیات اور ٹول پلازوں سمیت دیگر تعمیراتی کام شامل ہیں۔
چونکہ موٹروے ریتلی اور بنجر زمین پر تعمیر کیا جا رہا ہے اس لئے درختوں کی کمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سڑک کے دونوں اطراف ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت ملکی سطح پر جاری "سرسبزوشاداب پاکستان” شجر کاری مہم کے تحت لگائے گئے ہیں۔موٹروے کے توسط سے نہ صرف اسلام آباداور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان فاصلے میں نمایاں کمی واقع ہو گی بلکہ اس سے قومی شاہراہیں این- 50 اور این-55 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر بھی منسلک ہو جائیں گی۔ موٹروے کی تعمیر علاقے میں سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے نئے دورکے آغاز کا موجب بنے گی۔