عوام کو سستی توانائی کی فراہمی کے لئے توانائی مکس میں قابل تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاور کا حصہ بڑھانا حکومت کی اولین ترجیح ہے ، نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی

126
عوام کو سستی توانائی کی فراہمی کے لئے توانائی مکس میں قابل تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاور کا حصہ بڑھانا حکومت کی اولین ترجیح ہے ، نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی
عوام کو سستی توانائی کی فراہمی کے لئے توانائی مکس میں قابل تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاور کا حصہ بڑھانا حکومت کی اولین ترجیح ہے ، نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی

اسلام آباد۔20دسمبر (اے پی پی):نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ توانائی مکس میں قابل تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاور کا حصہ بڑھانا حکومت کی اولین ترجیح ہے کیونکہ عوام کو سستی توانائی کی فراہمی کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں کمی کا یہی واحد راستہ ہے،اس وقت کل انرجی مکس میں ہائیڈل اور قابل تجدید توانائی کا حصہ 31 فیصد ہے اور حکومت نے 2030 تک اسے بڑھاکر 61 فیصد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز تیسری بین الاقوامی ہائیڈرو پاور کانفرنس جس کا انعقاد انرجی اپ ڈیٹ نے پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) اور انٹرنیشنل ہائیڈرو پاور ایسوسی ایشن (آئی ایچ اے) کے اشتراک سے کیا تھا کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس سے ہمیں توانائی کے شعبے میں پالیسی فریم ورک کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، ملک میں ہوا، شمسی توانائی اور پن بجلی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، ہم صرف پن بجلی سے 64 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں لیکن اب تک صرف 11 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائیڈوپاور دنیا بھر میں سب سے سستا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور اس سے کئی ملازمتیں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تمام لوگوں کو بجلی مہیا کرنی ہے۔وزیر توانائی نے کہا کہ 4200 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور، 800 میگاواٹ مہمند ڈیم اور 4500 میگاواٹ دیامر بھاشا ڈیم پر کام جاری ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے میگا منصوبوں کے لئے فنانسنگ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں تھر کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر موجود ہیں جو دہائیوں تک بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔توانائی کے تحفظ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک بھر میں صرف توانائی کی بچت کرنے والے پنکھوں کے ذریعے ہی 3000 سے 4000 میگاواٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ محمد علی نے کہا کہ توانائی کی بچت سے ہم ایک ارب ڈالر سالانہ بچا سکتے ہیں، ملک میں صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے بجلی کی طلب اور پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے ،

بجلی کے نئے پلانٹس موجودہ سے سستے ہونے چاہییں ۔ نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ماضی کے ڈالر بیسڈ معاہدے ہیں ، جب معاہدے ہوئے تو ڈالر کی قیمت 100روپے کے قریب تھی جبکہ آج ڈالر کی قیمت 285 کے آس پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کے معاہدوں پر کپیسٹی پیمنٹس دینی ہوتی ہیں، ڈالر کی قدر بڑھنے سے یہ پیمنٹس بھی بڑھ گئیں جس کے باعث بجلی بھی مہنگی کرنی پڑی، ہم ماضی کے معاہدے تبدیل نہیں کر سکتے ۔

محمد علی نے کہا کہ ہمیں اس طریقے سے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی کہ ریٹ نیچے آجائے، ہم اپنا فکسڈ ریونیو بڑھانے اور ویری ایبل ریٹ نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ویری ایبل ریٹس نیچے آنے سے صارفین اور انڈسٹری کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان توانائی کی پیداوار میں اپنے عالمی اہداف حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہے، ہمیں اکنامک گروتھ کے لیے بجلی کا ٹیرف نیچے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہماری گیس صنعتوں کے لئے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے سستی ہے اور گھریلو صارفین کو بھی کم قیمت پر گیس مہیا کی جا رہی ہے۔

تیسری بین الاقوامی ہائیڈرو پاور کانفرنس جس کا موضوع "ہائیڈرو پاور: پائیدار مستقبل کے لئے قابل تجدید توانائی کا ذریعہ” تھا کے موقع پر دیگر مقررین نے پن بجلی اور قابل تجدید توانائی کو ملک کے پائیدار مستقبل کے لئے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے عوام اور صنعت کو سستی بجلی کی فراہمی کے لئے پن بجلی اور قابل تجدید توانائی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ قابل تجدید توانائیاور ہائیڈرو پاور ملک کا مستقبل ہیں لیکن عوام کے فائدے کے لیے ان علاقوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کی اشد ضرورت ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ ڈاکٹر شاہجان مرزا نے کہا کہ ہائیڈرو پاور منصوبے ماحولیات اور معیشت کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی پی آئی بی اب تک 1100 میگاواٹ صلاحیت کے چار منصوبے شروع کر چکا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پن بجلی منصوبوں کے لئے نجی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے پیمانے پر فنانسنگ اور طویل مدت کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2030 تک قابل تجدید توانائی اور ہائیڈل شیئر کا 60 فیصد ہدف بھی مقرر کیا ہے اور اس سے تقریبا 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔چیف ایگزیکٹو آفیسر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) انجینئر محمد نعیم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قابل تجدید توانائی سے ملک کا مستقبل بدل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ڈبلیو نہ صرف صنعت اور صارفین کے لئے بلکہ ملک کی آب و ہوا اور معیشت کے لئے بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس شمال میں ہائیڈرو انرجی کی وسیع صلاحیت موجود ہے جبکہ جنوب میں ہوا اور شمسی توانائی کی۔ انہوں نے کہا کہ پیڈو خیبر پختونخواہ کے دور دراز علاقوں میں چھوٹے پن بجلی کے منصوبوں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مائیکرو ہائیڈرو منصوبے پہلے ہی قریبی علاقوں کو انتہائی سستے نرخوں پر بجلی کی فراہمی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 750 میگاواٹ صلاحیت کے مزید 9 منصوبے پائپ لا ئن میں ہیں۔ انہوں نے صارفین اور صنعتوں کو سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے قابل تجدید توانائی منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے علاوہ قابل تجدید توانائی منصوبوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔انٹرنیشنل ہائیڈرو پاور ایسوسی ایشن (آئی ایچ اے) کے سی ای او ایڈی رچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں پن بجلی کی اہمیت اور مستقبل کے پہلو پر روشنی ڈالی۔ آرگنائزیشن کمیٹی کے چیئرمین نعیم قریشی نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ یہ کانفرنس صرف ایک اجتماع نہیں ہے بلکہ یہ ایک متحرک تبادلے کا خیال ہے

جس کا مقصد پن بجلی کے شعبے کو آگے بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ موضوع قابل تجدید توانائی کی طرف عالمی تبدیلی میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پن بجلی کی صلاحیت کو تلاش کرنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں پن بجلی کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ مشترکہ کوششوں کے لئے اسٹیج مرتب کرنے کا ایک موقع ہے جو پائیدار توانائی کے لئے ہمارے نقطہ نظر کی وضاحت کرے گا۔ کانفرنس کی کارروائی کے علاوہ وزیر توانائی نے دو ایوارڈز بھی پیش کیے۔ ایک واپڈا کی جانب سے تربیلا منصوبے کی چوتھی توسیع اور دوسرا سی ایس آئی ایل کے زیر اہتمام 720 میگاواٹ کے کروٹ منصوبے کو دیا گیا۔