مذاکرات اور مشاورت ہی سے ہم معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پا سکتے ہیں، بیگم ثمینہ عارف علوی

410
Begum Samina Alvi
Begum Samina Alvi

اسلام آباد۔26اکتوبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ بیگم ثمینہ عارف علوی نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے سے انتہا پسندی اور عدم برداشت ختم کرنے کیلئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ، مذاکرات اور مشاورت ہی سے ہم معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پا سکتے ہیں، ان تمام مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ میں ہی موجود ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں "معاشرے میں عدم برداشت "کے موضوع پر سیرت نبی ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس اہم موضوع پر سیرت کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔اس کانفرنس میں اہم سماجی مسئلہ یعنی کہ معاشرے میں عدم برداشت کوموضوع بنایا گیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہرکی کہ اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیرت طیبہ ﷺ اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی جا سکے اور وہ اپنی زندگی کو اسلام کے سکھائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزار سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺکو آخری پیغمبر کی حیثیت سے اس دنیا میں بھیجا۔

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے دین کو مکمل کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا”۔اس آیت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دو باتیں واضح کردیں ، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دین ِ اسلام کو پسند کیا ہے اور یہ ایک مکمل دین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مکمل دین ہونے کی حیثیت سے اسلام ہمیں نہ صرف ایمانیات ، عقائد اور عبادات کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ ہمیں زندگی میں درپیش مختلف مسائل پر بھی تعلیم دیتا ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی میں دین سے ضروررہنمائی لیں ۔

ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے قرآن اور سنت نبویﷺ سے ہدایت لینے کی ضرورت ہے ۔ ثمینہ علوی نے کہا کہ مسلم امہ کو عدم برداشت جیسے بڑے مسئلے کا سامنا ہے ۔ ہمارے معاشروں میں انتہا پسندی اور دوسروں لوگوں کے نظریات اور خیالات کی جانب انتہاپسندانہ رد عمل دیکھنے کو ملتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی قوم کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہزاروں قربانیاں دینی پڑی اور ہمیں اربوں روپے کا بھی نقصان ہوا۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا۔ دہشت گردوں نے پاکستان بھر کی مساجد میں نمازیوں ، سکولوں میں بچوں اور دیگر جگہوں پر عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اگرچہ ہم سب نے مل کر دہشت گردی کو شکست تو دے دی ، مگر ہمیں اپنے معاشرے سے انتہا پسندی اور عدم برداشت ختم کرنے کیلئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان تمام مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ میں ہی موجود ہے ۔

انہوں نے کہاکہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نہ صرف تعلیم اور علم حاصل کریں بلکہ جو کچھ آپ یہاں سے سیکھیں اسے اپنی زندگیوں میں عمل ضرور کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، جو کچھ آپ سیکھیں اسے دوسروں تک ضرور پہنچائیں ۔ انہوں نے کہا کہ دین کا علم رکھنے والی بہت سی خواتین موجود ہیں مگر میں چند قرآنی آیات اور حضورﷺ کی زندگی کے چند واقعات کی جانب ضرور آپ کی توجہ دلانا چاہوں گی تاکہ ہم اس کی روشنی میں نہ صرف اپنی عملی زندگی میں تبدیلی لا سکیں بلکہ عدم برداشت جیسے بڑے مسئلے پر بھی قابو سکیں ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں معاشرے میں عدم برداشت کو روکنے کیلئے حضورﷺ کو اپنے لیے مثال بناتے ہوئے ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہوگا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "(لوگو)، اللہ کے رسول میں تمھارے لیے ایک بہترین نمونہ موجود ہے ، اُن کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور روز آخرت کی توقع رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں”۔اس آیت کی روشنی میں ہر ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ حضورﷺ کو اپنے لیے ایک آئیڈیل بنائے ، آپ ؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے ، ان کے بتائے ہوئے اخلاقی اصولوں پر چلے ، جس طرح حضورﷺ نے زندگی گزاری ، اسی طرح زندگی گزارنے کی ہر وقت کوشش کرتا رہے ۔ حضورﷺ اخلاق کا بہترین نمونہ ہیں ۔

ہمیں بھی آپ ؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی اور اپنے معاشرے کی اخلاقیات کو بہتر کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہے کہ "سو یہ اللہ کی عنایت ہے کہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو، ( اے پیغمبر)، اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے پاس سے منتشر ہوجاتے، اِس لیے اِن سے درگذر کرو، اِن کے لیے مغفرت چاہو اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو، اِس لیے کہ اللہ کو وہی لوگ پسند ہیں جو اُس پر بھروسہ کرنے والے ہوں”۔اس آیت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں خود میں نرمی لانے کی ضرورت ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے نرم خو ہونے کو اس آیت میں ایک بہت بڑی عنایت قرار دیا ہے ۔ مگر یہ ہمارے معاشرے کا منفی پہلو ہے کہ جو شخص نرم مزاج اور بہتر اخلاق کا ہو تو اسے کمزور تصور سمجھا کیا جاتا ہے ۔ تو ہمیں اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کرنی ہے ۔ اپنی طبیعت میں نرمی پیدا کرنا ہے ۔ اپنی گفتگو کو اس طرح سے بہتر بنانا ہے کہ ہم کسی کی دل آ زاری نہ کریں ۔

بہت سے مسائل شروع ہی الفاظ کے انتخاب سے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم لوگوں سے اپنی گفتگو کو بہتر کرلیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں ۔ ثمینہ علوی نے کہا کہ ہمیں اس آیت سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو معاف کرنے ، درگزر کرنے کی ضرورت ہے ۔ بعض اوقات ہم چھوٹی چھوٹی باتیں نظر انداز نہیں کرتے اور ایک معمولی سی بات کو پکڑ کر جھگڑا شروع کردیتے ہیں ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں غصہ ، عدم برداشت ، تشدد اور جارحانہ رویہ پیدا ہوتاہے ۔ ہمیں حضورﷺ کی طرح اپنے اردگرد کے لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرنا چاہیے ۔ آپ لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں ، درگزر کریں ۔

اگر انہیں آپ کچھ سکھانا چاہتے ہیں تو ایک مہذب انداز میں لوگوں کو آگاہ کریں ۔ اپنی تنقید میں تمیز کا دامن کبھی نہ چھوڑیں ۔ اس سے سننے والا آپ کی بات سنے گا ، سمجھے گا ، اس کی دل آزادی بھی نہیں ہوگی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کو سدھارے اور وہ آپ کی بات کا برا بھی نہیں مانے گا۔ تو اپنے الفاظ کے چنائو میں محتاط رہیں ، لوگوں سے نرمی سے بات کریں ، لوگوں کو جوڑیں اور ان میں محبت پیدا کریں نہ کہ لوگوں کو تقسیم کریں ۔ یہ وہ اقدار ہیں جو قرآن نے ہمیں سکھائیں، حضورﷺ نے ہمیں سکھائیں ، مگر ہم اپنی عمل زندگی میں اکثر انہی نظر انداز کردیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں انفرادی طور پر اور معاشرتی سطح پر اپنے معاملات میں لوگوں سے مشاورت کرنی چاہیے، اِسی سےلوگوں میں حسن ظن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے نہ صرف نظام میں بلکہ قومی سطح پر بھی اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی پیداہوتی ہے۔ لوگ خود کو جب فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ محسوس کریں گے تو ان کی احساس ذمہ داری بھی بڑھے گا، نظام پر اور ملک پر ان کا اعتماد بڑھے گا۔ وہ خود کو ملک اور قوم کیلئے اہم تصور کریں گے اور زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ کام کریں گے ۔ اس کے برعکس مشورہ کے بغیر فیصلہ سازی سے لوگوں کی شکایات بڑھتی ہیں ۔

لوگ خود کوقومی دھارے سے الگ محسوس کرتے ہیں ۔ لوگوں کے اندر مایوسی پھیلتی ہے کہ شاید وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ جو فیصلے لیے جارہے ہیں وہ صرف چند لوگوں یا گروہوں کے مفاد کیلئے ہی لیے جارہے ہیں اور اس میں ان کا کوئی فائدہ یا عمل دخل نہیں ۔ اسی طرح خاندان کی سطح پر بھی مشاورت اور بات چیت کے ذریعے سے ہی خاندان کے امور کو زیادہ احسن انداز میں چلایا جا سکتا ہے ۔ یہی اصول ہمارے معاشرے کے دیگر اداروں کیلئے بھی ہے وہ اپنے اندر مشاورت کے کلچر کو فروغ دیں ۔ اس سے معاشرے کے مختلف طبقات کو مل کر بیٹھنے ، اپنے معاملات پر گفتگو کرنے ، ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے اور انتہائی مہذب انداز میں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع ملے گا۔

مذاکرات اور مشاورت ہی سے ہم معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ قرآن کریم اور حضورﷺ کی زندگی ایسی تعلیمات سے بھری پڑی ہے اور سب کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں تو میں صرف اس بات پر اپنی تقریر کا اختتام کروں گی کہ سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں اور جتنا ممکن ہو سکے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ اسی میں ہم سب کی کامیابی ہے اور ہمارے سماجی مسائل کایہی حل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چھاتی کا کینسر ایک جان لیوا مرض ہے اور اس کا بروقت علاج ضروری ہے ۔

اگر اس مرض کی جلد تشخیص ہو جائے تو اس بیماری سے بچنے کےامکانات تقریباً 98 فیصد ہوتے ہیں ۔ اس مرض سے گھبرانے یا اس موضوع پر بات کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں ۔ آپ کی زندگی اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے ۔ اس کا خیال کریں ۔ آپ کی صحت اچھی ہوگی تو آپ اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں ادا کر سکیں گی ۔

انہوں نے کہاکہ خواتین ہر ماہ صرف پانچ منٹ کے لئے اپنا خود جسمانی معائنہ کریں ۔ اگر آپ کو اپنے سینے یا اس کے ارد گرد گلٹی یا سوجن یا کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نظر آئے تو فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ اگر آپ میں چھاتی کا سرطان ہو تو آپ کا جلد علاج شروع کیا جا سکے ۔

جلد علاج شروع کرنے سے نہ صرف خرچہ کم آتا ہے بلکہ اس سے تکلیف اور پریشانی بھی کم ہوتی ہے اور زندگی بچانے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ کانفرنس سے چیئرپرسن النور ویلفیئر فاؤنڈیشن نگہت ہاشمی ، انچارج دعوہ مرکز برائے خواتین ڈاکٹر فریال عنبرین نے بھی خطاب کیا۔انہوں نے اسلامی تعلیمات اور حیات طیبہؐ کی روشنی میں عدم برداشت کے سد باب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔