نیشنل فلڈ ریسپانس و کوآرڈینیشن سنٹر کا سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ آخری فرد کی گھر واپسی تک متحد ہوکرکام کےعزم کااظہار

382
نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی)

اسلام آباد۔3ستمبر (اے پی پی):نیشنل فلڈ ریسپانس و کوآرڈینیشن سنٹر (این ایف آر سی سی )نے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ آخری فرد کے اپنے گھر آباد ہونے تک متحد ہو کر کام کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری ، پاکستانی تارکین وطن اور قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرین کی بحالی اور آباد کاری کیلئے بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جن علاقوں میں کم بارشیں ہوتی تھیں وہاں سینکڑوں گنا زیادہ بارشیں ہوئیں،

دنیا بھر سے موصول ہونے والی امداد کی شفاف تقسیم یقینی بنائیں گے، پاکستانی عوام اور ادارے اپنی امداد کی تقسیم کیلئے مسلح افواج کے قائم ریلیف مراکز سے رابطے کریں، متاثرہ علاقوں میں بڑی شاہراہیں، ٹرانسمیشن لائنیں اور گرڈ سٹیشن کافی حد تک بحال کر دیئے گئے ہیں، ہر فرد تک امدادی سامان پہنچانے کیلئے مربوط کوششیں جاری ہیں، کوشش کریں گے کہ کچے گھروں میں رہنے والوں کو ان کے نقصان کے ازالے کے طور پر ایسے پکے گھر بنا کر دیں جو سیلاب سے کم متاثر ہوں۔

ہفتہ کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار، چیئرمین نیشنل فلڈ ریسپانس میجر جنرل محمد ظفر اقبال اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جس قدرتی آفت کا سامنا ہے یہ تباہ کن اور انسانی المیہ ہے،

حالیہ تاریخ میں دنیا کے اندر سب سے بڑی موسمیا تی تبدیلی المیہ ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے، جن علاقوں میں اس وقت طوفانی بارشیں ہوئی ہیں وہاں سب سے کم بارشیں ہوتی تھیں، یہ ہماری 30 سال کی اوسط میں 500 گنا زیادہ بارشیں تھیں، اس کے نتیجہ میں 3 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ، اس نقصان کا پیمانہ بہت بڑا ہے، امریکا اور جاپان اس طرح کی قدرتی آفات کے سامنے بے بس نظر آئے، پاکستان میں اس المیے کا پیمانہ حکومت اور وسائل کے مقابلے میں بہت بڑا ہے تاہم ہمارا عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 2005 میں زلزلہ اور سیلاب میں ہماری قوم نے ثابت کیا کہ کہ وہ مل کر اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کا جذبہ متاثر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کوئی ادارہ یا کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کیلئے پوری قوم نے مل کرمقابلہ کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر تک ہوئی جہاں یہ بارش معمول کے مطابق 15 یا 20 ملی میٹر تک ہوتی تھی، زیادہ بارش کے سندھ اور بلوچستان میں برے اثرات مرتب ہوئے ، اس کے علاوہ جنوبی پنجاب ، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے کچھ علاقے بھی متاثر ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو تباہی ہوئی اس کی بڑی وجہ تیز بارش اور طغیانی تھی۔ انفراسٹرکچر کا نظام بلوچستان میں بڑی تعداد میں تباہ ہوا ہے، ملک سے بلوچستان کو جوڑنے والی 14 بڑی شاہراہیں جن کا ملکی معیشت میں بڑا کردار ہے وہ متاثر تھیں تاہم ان میں سے این ایچ اے کی کاوشوں سے اور مسلح افواج کے انجینئرز نے 11 کو بحال کردیا ہے صرف 3 ہائی ویز پر جزوی بلاک ہیں ان کی بحالی کیلئے دن رات کام ہو رہا ہے جو چند دنوں میں بحال ہو جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں پانی آہستہ آہستہ اتر رہا ہے، یہاں علاقے سمندر کا منظر پیش کر رہے ہیں،

یہاں تمام ادارے اور صوبائی انتظامیہ مل کر بحالی کے لئے کوشاں ہیں، یہاں 230 اموات ہوئیں، سڑکیں متاثر ہوئیں ، منڈا ہیڈورکس کو نقصان پہنچا، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو سیلاب نے متاثر کیا، یہاں 54 افراد جاں بحق ہوئے، فصلوں، لائیوسٹاک کو نقصان پہنچا ، یہاں تیزی سے ریکوری کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کی بحالی بھی وفاقی ادارے اسی جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں ۔81 متاثرہ گرڈ سٹیشنوں میں سے 69 بحال ہو چکے ہیں، 881 فیڈر متاثر ہوئے ان میں سے 758 بحال ہو چکے ہیں، 123 کی بحالی پر کام جاری ہے، 8 ٹرانسمیشن لائنوں کو نقصان پہنچا، صوبہ بلوچستان میں متاثرہ لائینوں میں سے 6 بحال ہوچکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیلی مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ ساڑھے تین ہزار ٹیلی مواصلات ٹاور متاثر ہوئے، ان میں سے 2900 بحال ہوچکے جبکہ باقی کی بحالی کیلئے وزیراعظم نے 48 گھنٹے کا وقت دیا ہے، ان کی 600 سے زیادہ ٹیمیں فیلڈ میں کام کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج وہ وقت ہے کہ جب ہم سب کو مل کر اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے جبکہ کسی قوم پر کوئی مشکل آتی ہے تو یہ اس کا امتحان ہوتا ہے، یہ اس کیلئے موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی یکجہتی سے وہ کام کر گزرے جو عام حالات میں نہ کر سکے، ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی سے نکلیں،

کچی بستیوں کو غربت کی تصویر کی بجائے ایسی پختہ بستیاں ہوں جنہیں آئندہ سیلاب متاثر نہ کرسکیں، ہم نے ندی نالوں میں تعمیرات کر کے غلطیاں کی، آئندہ ان ندی نالوں کو پانی کی گزر گاہ کیلئے رہنے دیا جائے تاکہ سیلابی پانی کو راستہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل فلڈریسپانس و کوآرڈینیشن سنٹر وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطہ کیلئے بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عطیہ کرنے والوں کیلئے پاک آرمی کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جو بھی افراد عطیہ کرنا چاہیں وہ یہاں عطیہ دیں۔ اس کے علاوہ یہ رہنمائی بھی کی جائے کہ کن علاقوں میں امداد کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ اس کی مساوی تقسیم ہو، ہم این جی اوز کی بھی اس سلسلے میں رہنمائی کریں گے تاکہ کوئی علاقہ امداد سے محروم نہ رہے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ سال 2022 پاکستان کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنا، 4 ہیٹ ویوز کا سامنا کیا جس سے بڑی مقدار میں جنگلات کو آگ لگی، اس کے بعد شدید بارشوں کا سامنا ہے،

اس سال 20 سے 25 فیصد زیادہ بارشیں ہونی تھیں تاہم 190 فیصد سے زیادہ بارشیں ہوئیں، بلوچستان میں 436 اور سندھ میں 464 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ اپنے روایتی علاقوں کی بجائے یہ بارشیں ایسے علاقوں میں ہوئی جہاں انتہائی کم بارشیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، مجموعی طور پر ان بارشوں سے 1265 اموات ہوئیں جس میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے، انفراسٹرکچر اور لائیو سٹاک کو نقصان پہنچا،7 لاکھ 35 ہزار مویشی بہہ گئے ، 5563 شاہراہیں، 263 پل تباہ ہوئے، اس کے بحالی کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ احسن اقبال کی سربراہی میں فیڈرل کوآرڈینیشن کمیٹی قائم کی گئی ،

ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، وفاقی حکومت نے این ڈی ایم اے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی شراکت سے متاثرین کو 25 ہزار روپے فی گھرانہ فراہم کرنے کا کام شروع کیا ،فوری ضروریات کے حوالے سے وزارت اقتصادی امور کو آگاہ کیا، یو این فلش اپیل کا آغاز کیا جس کا مثبت فیڈ بیک آ رہا ہے، فوری طور پر صوبے ،این ڈی ایم اے اور پاک فوج کی جانب سے مشترکہ سروے بلوچستان سے شروع ہوچکا ہے، بہت جلد دوسرے صوبوں میں بھی نقصانات کا سروے شروع کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 4 لاکھ 20 ہزار خیمے تقسیم کئے جا چکے ہیں، ٹینٹ بنانے والوں کے ساتھ ملاقات کے بعد اپنی ڈیمانڈ کے حوالے سے مقامی سطح پر ٹینٹ تیار کرنے کے عمل کو آن لائن دیکھ رہے ہیں، 90 کلوگرام کا خوراک پیکج لاکھوں کی تعداد میں مہیا کر چکے ہیں، عالمی برادری کی طرف سے اپیل پر مثبت رد عمل سامنے آیا ہے، 4 دنوں میں 29 پراوزیں آ چکیں ان پروازوں میں 2 ہزار 728 ٹینٹ ، کشتیاں، 56 ٹن ادویات، قطر اور فرانس کی جانب سے میڈیکل ٹیمیں بھی آرہی ہیں جبکہ خشک خوراک کی بھی بڑی تعداد میں موصول ہوئی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ پاک فوج کا ہر جوان امدادی کاموں کو قومی فریضہ سمجھ کر سرانجام دے رہا ہے، 6 آفیسر اور جوان اس خدمت کے دوران جام شہادت نوش کر گئے، آرمی چیف کی خصوصی ہدایت کے مطابق ہم عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے چاہے اس کیلئے کتنی کوششیں درکار ہوں، آرمی فلڈ ریلیف اور کو آرڈینیشن سنٹر قائم کیا گیا ہے، ریسکیو اور بحالی کی حکمت عملی کے تحت افواج پاکستان ، سول انتظامیہ ،

این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے، آرمی چیف نے سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے اور وہاں جاری ریلیف آپریشن کا جائزہ لیا، آرمی کی تمام فارمیشنز فعال ہیں، پاکستان آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے ہیلی کاپٹر مسلسل فعال ہیں، موسم کی مشکلات کے باوجود لوگوں کو ریسکیو کیا گیا، کمراٹ کالام میں پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا، متاثرین کیلئے ہیلپ لائن قائم کی گئی ہیں،

پاک فوج کے 147 ریلیف کیمپ قائم ہیں،250 میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے ہیں جہاں 83 ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے، سندھ کیلئے اضافی میڈیکل ریسورسز بھجوا دیئے گئے ہیں، آرمی نے 1685 ٹن راشن فراہم کیا ہے،284 فلڈ ریلیف کولیکشن پوائنٹ قائم کئے گئے ہیںِ جہاں ہزاروں ٹن اور ادویات جمع ہوئی ہیں، 1793 ٹن سامان متاثر میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ نیوی اور ایئر فورس کی امدادی ٹیموں کی کارکردگی قابل ذکر ہے، سی ون 30کی پروازوں کے دوران ہزاروں افراد کو ریسکیو کیا گیا ۔ پاکستان نیوی نے 10 ہزار متاثرین کو ریسکیو کیا، آرمی ریلیف فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں متاثرین کیلئے دل کھول کر مدد کی جا رہی ہے، آرمی کے تمام جرنیلز نے ایک ماہ کی تنخواہ دی ہے، دیگر افسروں اور جوانوں کی جانب سے بھی امداد دی گئی ہے، اسی طرح 6 ستمبر کی تقریب بھی موخر کر دی گئی ہے، تاہم اپنے شہدا کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے،

پاک فوج کسی بھی مشکل وقت میں عوام کی مدد کیلئے پیش پیش ہے، اپنے تمام وسائل بروئے کا لا کر مشکل کی اس گھڑی میں ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چیئرمین نیشنل فلڈ ریسپانس میجر جنرل محمد ظفر اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے این ایف آر سی سی کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کے ذمہ سب سے اہم کام موصول ہونے والی امداد کو شفاف طریقے سے ہر متاثرہ شخص تک پہنچایا جا سکے، تمام وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور محکموں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا ہے تاکہ اس کام کو آگے لے کر جا سکیں، اس سیلاب سے تعمیر نو کے حوالے سے بھی یہ ادارہ کا م کرے گا۔ مختلف وزرا بھی اس کے ممبران ہیں، پاک فوج بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ از خود ریلیف تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ اس سلسلے میں بھی متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں تاکہ آخری شخص تک یہ امدادی سامان پہنچ سکے، احسن اقبال نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ پاکستان کو ایک سنگین المیے کا سامنا ہے جو عالمی حدت کی وجہ سے ہے جو پاکستان کا پیدا کردہ نہیں۔

انہوں نے کہا پاکستان موسمیاتی تباہی کے اعتبار سے دنیا کے 7 ممالک میں شامل ہے، تباہی بہت بڑی ہے جس کیلئے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے، ہم اپنے پاکستانیوں ، تارکین وطن اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرین کی بھرپور مدد کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ سکے، ہم اپنے ترقیاتی شراکت داروں کی امداد کے بھی منتظر ہیں تاکہ لوگ اپنے گھروں میں آباد ہو سکیں اور معمول کی زندگی بسر کر سکیں۔