وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان کا سینیٹ اجلاس میں گردشی قرضہ 1660 ارب روپے کی حد عبور کرنے کے معاملے پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہارخیال

61
موجودہ حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کی ترقی کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں، وفاقی وزیرعمرایوب خان کا کانووکیشن سے خطاب

اسلام آباد ۔ 27 جولائی (اے پی پی) وفاقی وزیر برائے بجلی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے مہنگی بجلی کے معاہدے کئے، انتخابات کے تناظر میں بجلی کی قیمتوں میں ڈیڑھ سال اضافہ نہ کر کے ہمارے لئے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں، ماضی میں بجلی کے ترسیلی نظام اور بجلی چوری کی روک تھام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، موجودہ حکومت نے پن بجلی، ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے جس سے عوام کو سستی بجلی میسر آئے گی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد کی گردشی قرضہ 1660 ارب روپے کی حد عبور کرنے کے معاملے پر تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو معلوم ہوا کہ سابق حکومت نے ڈیڑھ سال سے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا، وہ بجلی کی قیمتیں ایک جگہ برقرار رکھ کر انتخابات جیتنا چاہتے تھے لیکن عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔ اس صورتحال کو ہماری حکومت کو بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کی صورتحال کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3.29 روپے اضافہ ناگزیر تھا لیکن ہم نے 1.29 روپے اضافہ کیا۔ 300 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بجلی کے ترسیلی نظام اور بجلی چوری کی روک تھام پر کوئی کام نہیں کیا گیا، ماضی میں اقدامات نہ کرنے کے باعث ترسیلی نظام میں ٹرپنگ ہوتی تھی لیکن اب ٹرپنگ نہیں ہوتی، ماضی میں ترسیلی نظام 18 ہزار میگاواٹ کی ترسیل نہیں کر سکتا تھا لیکن اب 25 ہزار میگاواٹ تک بجلی ترسیل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے مہنگی بجلی کی خریداری کے معاہدے کئے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قابل تجدید توانائی کے چار ہزار میگاواٹ کے پیداواری منصوبوں کو ختم کر دیا، ان کی بجائے ایل این جی منصوبے شروع کئے جن کے ذریعے مہنگی بجلی خریدی گئی، ماضی میں بجلی کے غلط معاہدے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گیس اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں توانائی کے منصوبوں کو درآمدی ایندھن پر منتقل کیاگیا جس سے بجلی مہنگی ہوئی، ہم نے لائن لاسز کم کئے، بجلی چوری کی روک تھام پر توجہ مرکوز کی، ماضی میں گردشی قرضہ 39 ارب روپے ماہانہ تھا، ہم اسے 17 ارب روپے ماہانہ پر لائے۔ انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے مسابقتی بنیادوں پر شروع کئے جا رہے ہیں، اس بجلی سے سندھ اور بلوچستان کو زیادہ فائدہ ہو گا، ان منصوبوں سے 2025ءتک آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی ہوا اور پانی سے حاصل ہو گی، 2047ءتک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پانی، ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں کے ذریعے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم سمیت پن بجلی کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے، ان منصوبوں کی تکمیل سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی، بجلی کے ترسیلی نظام میں بہتری کے لئے مصنوعی دانش کے نظام سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کئی سال سے حکومت ہے اور کراچی سمیت سندھ کے مسائل کی ذمہ دار پیپلزپارٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی فراہمی کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے، نیپرا نے کے الیکٹرک کو بجلی کی عدم فراہمی پر نوٹس جاری کر دیا ہے، کے الیکٹرک کے پاس ایسا ترسیلی نظام نہیں ہے جس کے ذریعے نیشنل گرڈ سے اضافی بجلی فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک رکن نے چیئرمین نیپرا سے کم جرمانے کرنے کا کہا ہے تاہم نیپرا قانون کے مطابق کارروائی کرے گا، آئندہ ایک سال کے دوران کراچی میں بجلی کی فراہمی میں مزید بہتری آئے گی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وفاقی وزیر کی جانب سے بحث سمیٹتنے کے بعد تحریک نمٹا دی۔