وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق رپورٹ 23-2022 کا اجرا کردیا، ایک سال میں 21 ملین لڑکیاں تعلیمی اداروں میں داخل ہوئیں، رپورٹ

184
Khalid Maqbool Siddiqui
Khalid Maqbool Siddiqui

اسلام آباد۔28اگست (اے پی پی):وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت خالد مقبول صدیقی نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹ 23-2022 کا باقاعدہ اجرا کر دیا ، ایک سال کے دوران 21 ملین لڑکیاں تعلیمی اداروں میں داخل ہوئیں ،ملک بھر میں 28 فیصد تعلیمی ادارے لڑکیوں کے لئے ، 31 فیصد مخلوط جبکہ 41 فیصد تعلیمی ادارے لڑکوں کے لئے ہیں ، رپورٹ میں حائل چیلنجز سے نمٹتے ہوئے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ۔

بدھ کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تیار کردہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اعدادو شمار اور رجحانات پر مبنی رپورٹ 23-2022 کے اجراء کی تقریب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی ۔ تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت خالد مقبول صدیقی تھے ۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تعلیم حسن ثقلین ، ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویا ،وائس چانسلر علامہ اقبال او پن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود ، پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فجر کے علاوہ دیگر سٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کی کثیر تعداد موجود تھی ۔وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی لڑکیوں سے متعلق رپورٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلا م آباد سمیت ملک بھر میں جہاں بھی تعلیمی سالانہ نتائج اچھے آتے ہیں اس میں لڑکیوں کا کلیدی کردار نظر آتا ہے ،ہم نے اپنی بچیوں کو مزید اعتماد دے کر ان سے اور اچھے نتائج حاصل کرنے ہیں ، ہمارا دین بھی بچیوں کی تعلیم و تربیت کے مساوی مواقع فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ، آنے والی جنگیں بھی ڈیٹا کی بنیاد پر ہونی ہیں ، ہم نے نہ صرف زمینی حقائق کے مطابق ڈیٹا تیار کرنا ہے بلکہ اس کی حفاظت بھی اسی طرح کرنا ہوگی ۔ انہوں نے مثال دی کہ بنگلہ دیش میں مجموعی آبادی کے برابر ہمارے نوجوان ہیں ، ہم نے ان کو تعلیم ،تربیت اور ہنر فراہم کر کے انھیں نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ دنیا کے بحرانوں کا حل نکالنے والا بنانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی سفارش پر ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگائی ہے ، اس ایمرجنسی کے تحت وزارت تعلیم نے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بنائی ہیں جس پر تیزی سے کام جاری ہے ۔وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے ایڈیشنل سیکرٹری حسن ثقلین نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے ڈیٹا کی بنیاد پر پالیسی سازی اور لڑکیوں کے اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی ضرورت پر زور دیا تاکہ معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لڑکیوں کے داخلے میں اضافے کی پیشرفت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے صنفی تفاوت کے خاتمے کی مسلسل ضرورت پر روشنی ڈالی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک زیادہ جامع تعلیمی ماحول کے قیام کے لیے تعاون کی اپیل کی۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے لڑکیوں کی تعلیم پر مبنی رپورٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ رپورٹ اعداد و شمار پر مبنی ہے، جس میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں لڑکیوں کی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جہاں کچھ شعبوں میں پیشرفت ہوئی ہے، وہیں کچھ چیلنجز بدستور باقی ہیں۔2022-23 میں تقریباً 21 ملین لڑکیاں تعلیمی اداروں میں داخل ہوئیں جو کہ 25 ملین لڑکوں کے مقابلے میں کم تعداد ہے۔ اگرچہ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن ابھی بھی صنفی تفریق موجود ہے۔ خاص طور پر، تقریباً 13.71 ملین لڑکیاں اب بھی اسکول سے باہر ہیں، اور لڑکوں کے مقابلے میں 7فیصد کم امکان ہے کہ لڑکیاں اسکول جائیں گی۔تعلیمی اداروں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان میں 238,718 تعلیمی ادارے ہیں، جن میں سے 28 فیصد لڑکیوں کے لئے ، 41 فیصد لڑکوں کے لئے جبکہ 31 فیصد مخلوط تعلیمی ادارے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اگرچہ کچھ علاقوں میں سہولیات میں بہتری آئی ہے، لیکن 4 فیصد لڑکیوں کے اسکولوں میں ابھی بھی مناسب عمارتیں نہیں ہیں، اور 10 فیصد اسکول پائیدار تعمیراتی معیار پر پورا نہیں اترتے۔اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ لڑکیوں کے 25 فیصد اسکولوں کو مرمت کی ضرورت ہے، جبکہ 6 فیصد کو خطرناک حالت میں قرار دیا گیا ہے۔ 14 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا نہیں ہیں، 17فیصد میں پینے کا پانی دستیاب نہیں اور 22فیصد اسکولوں میں بجلی موجود نہیں ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے مزید توجہ اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے لڑکیوں کی تعلیم کے میدان میں کافی پیشرفت کی ہے، یہ پیشرفت اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف ( ایس ڈی جیز ) بلخصوص ایس ڈی جی فور (معیاری تعلیم) اور ایس ڈی جی فائیو(صنفی مساوات)سے منسلک ہے ، لڑکیوں کی تعلیم میں مزید سرمایہ کاری پاکستان کو ان عالمی اہداف کے حصول میں مدد دے سکتی ہے اور ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی تعمیر کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔یہ رپورٹ پالیسی سازوں، تعلیمی ماہرین اور ترقیاتی شراکت داروں کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے، جو صنفی مساوات اور جامع تعلیم کے حصول کے لیے مزید اقدامات اور حکمت عملی تیار کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے کہا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بھی سکولوں سےباہر بچوں میں سے 3 ملین بچے سکولوں میں لانے کے لئے کام کر رہی ہے ، اس وقت ہماری یونیورسٹی میں 10 لاکھ طالبعلم ہیں جو کم ترین تعلیمی اخراجات کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔