اسلام آباد ۔ 05 اکتوبر (اے پی پی) وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا بل حکومت یا کسی فرد کا نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پر مشتمل تھا‘ 21 جولائی 2017ءکو جو رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی اس میں ختم نبوت کے ”حلف“ کی بجائے ”اقرار“ کا لفظ شامل ہوا جس کی نشاندہی سینیٹ میں ہوئی اور وہاں ہم نے اس کی بحالی کا کہا تاہم ایسا نہ ہو سکا‘ ختم نبوت پر ایمان کے خلاف کسی سوچ سے منسلک ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ بل تین سال کی محنت و لگن سے تیار کیا تھا، کل 125 اجلاس ہوئے، تمام جماعتیں موجود تھیں، ہر شق پر اتفاق رائے میں سب کا کردار ہے، یہ سرکاری بل نہیں پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اتنی محنت کے بعد جو نکتہ اٹھایا گیا اس کا ممبران تصور بھی نہیں کرسکتے، ختم نبوت پر ایمان کے خلاف کسی سوچ سے منسلک ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے، یہ ایک مشترکہ کاوش ہے، کسی فرد کا یا جماعت کا بل نہیں تھا۔ وزیر قانون نے کہا کہ 21 جولائی 2017ءکی رپورٹ میں یہ اقرار نامہ تھا جس پر اب اعتراض کیا جارہا ہے، کسی کا تصور بھی نہیں تھا کہ ایسا نکتہ اٹھ سکتا ہے، پہلے والے میں حلف تھا‘ دوسرے میں اقرار ہے، اس پر بحث قانون دان کریں گے۔ تمام جماعتوں کا اتفاق تھا کہ اس کو نہیں چھیڑنا چاہیے تھا، تمام جماعتوں کا اس کو اصل حالت میں بحال کرنے کا اتفاق تھا۔ کاغذات نامزدگی میں اس طرح بحال کیا جارہا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کنڈکٹ آف الیکشن بل 2002ءکی دو شقوں 7 بی اور 7 سی جو اقلیتوں کے حوالے سے ہیں‘ ان دو شقوں کو بھی بحال کردیا جائے‘ اس میں بھی ترمیم کی جائے گی۔