پاکستان تیز رفتار اقتصادی و صنعتی ترقی کے لئے سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے پر توجہ دے رہا ہے، نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کافینکس ٹی وی کو انٹرویو

136
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس شروع
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس شروع

اسلام آباد۔31اکتوبر (اے پی پی):نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ’’صدی میں ایک بار آنے والا موقع‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے حصول کے لئے سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے پر توجہ دے رہا ہے، سی پیک منصوبوں سے منفرد مواقع اور تبدیلی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ شمال جنوب سڑکوں اور ریل اور روڈ نیٹ ورکس کی ترقی کے ساتھ خطےتک توسیع ملے گی، امن کے لئے مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان کو بھارت کی جانب سے بہت گہرے اور پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے،

غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے اورناقابل قبول تشدد کو جنگی جرائم کے طور پر سمجھا جائے۔ منگل کو نشر ہونے والے چین کے فینکس ٹی وی کو دئیے گئےانٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت شروع ہونے والے سی پیک نے پاکستان کے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی میں مدد فراہم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کے ارومچی اور پاکستان کے شمالی گلگت بلتستان میں خاص طور پر تجارت اور سیاحت میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں، پاکستان دونوں ممالک کے درمیان بڑی اقتصادی سرگرمیوں اور سیاحوں کی آمد کی توقع کر رہا ہے جس سے لوگوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں بہتری آئے گی، ارومچی سرزمین چین تک رسائی کے لئے ہمارے لئے گیٹ وے بن سکتا ہے،

یہ پاکستان اور چین دونوں کے مفادمیں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پسماندہ صوبے بلوچستان میں سی پیک منصوبوں کے ذریعے کثیرالجہتی ترقی کے حوالے سے پیشرفت کا ذکر کیا۔ بی آر آئی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منفرد مواقع اور تبدیلی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ شمال جنوب سڑکوں اور ریل اور روڈ نیٹ ورکس کی ترقی کے ساتھ خطےتک توسیع ملے گی،یہ دنیا میں چین کے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہا کہ اپنے دورہ چین کے دوران انہیں چین کی متاثرکن ترقی کے سفرنے مسحورکر دیا ،اس تاثر نے مجھے پاک چین دوستی کا سب سے بڑا سفیر بنادیاہے۔

چین کو تین الفاظ میں بیان کرنے کے سوال پر انہوں نے کہاکہ ’’باوقار، بڑا اور خود اعتماد‘‘ پاک چین تعلقات کے حوالہ سے انہوں نے انہیں "قریب ترین، سب سے قیمتی اور انتہائی پسندیدہ قرار دیا جس کی دونوں طرف سے گہری قدر کی جاتی ہے،پاکستان اور چین ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اگرچہ دو مختلف ممالک ہیں لیکن ایک قوم ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے گرین انرجی میں چین کے ساتھ تعاون پر انہوں نے روشنی ڈالی کہ پاکستان قدرتی آفات کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے اور اسے دنیا اور چین کے مختلف کثیرالجہتی فورمز تک لے جائے گا،

موسمیاتی تبدیلی ہماری پالیسیوں کا تعین کرے گی کہ یہ ملک اور خطے کے لئے خطرناک ہے، ہم تنہائی میں جواب نہیں دے سکتے۔ چین کے عروج کو کچھ ممالک کی طرف سے ایک خطرہ کے طور پر دیکھےجانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ زمین پر کوئی بھی طاقت ابھرتی ہوئی قوت کو ختم نہیں کر سکتی، اس سےنمٹنے کا صحیح طریقہ چین کے ساتھ تعاون کرنا ہے نہ کہ اس پر قابو پاناہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون جاری ہے

کیونکہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لڑنے کے لئے پرعزم ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ امن کے لئے مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان کو بھارت کی جانب سے گہرے اور پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ امن بھارت کی جانب سے ایک مبہم خیال ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر بات چیت یا معمول کی تجارتی سرگرمی ناقابل تصورہے۔

جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل میں بین الاقوامی برادری کے کردار پر انہوں نے کہا کہ دنیا کو اپنے مفادات کے بجائے اخلاقی اصولوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ غزہ کی صورتحال پر سوال پر انہوں نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بالکل ناقابل قبول تشدد کو جنگی جرائم کے طور پر سمجھا جائے۔ انہوں نے خوراک اور ادویات سمیت ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے غزہ تک انسانی امداد کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے راہداری کے قیام پر زور دیا۔