چیف جسٹس آف پاکستان کی عمران خان کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت

167
Supreme Court
Supreme Court

اسلام آباد۔2نومبر (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سیکرٹری داخلہ کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دئیے ہیں کہ 25 مئی کو عدالت عظمی کی طرف سے پہلا حکم دن گیارہ بجے جبکہ دوسرا شام 6 بجے دیا گیا،دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کیلئے ہی تھا،عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے،اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا،اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔بدھ کو معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا،دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا کہ انہیں ہدایات نہیں ملیں،دیکھنا ہو گا عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا،یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی،پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے،موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے،وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی؟کیا وکلاء کی کسی سینئر لیڈر سے بات نہیں ہوئی تھی،کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا،کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے،تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، اگر جیمرز تھے تو اسد عمر سے پہلا رابطہ کیسے ہوا؟

اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا،یہی وجہ ہے کہ چھبیس مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماُدکو ٹھیس پہنچائی گئی،اٹارنی جنرل کو خدشہ تھا کہ امن و امان کی صورتحال پیدا ہو گی،عدالت نے پچیس مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی،اس دن میڈیا کمرہ عدالت میں موجود تھا،عدالتی حکم میڈیا پر نشر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت وکیل کی بات کا اعتبار نہ کرے،اگر رابطہ نہیں ہوسکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا،عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی،وکلاء کو ایچ نائن گرائونڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا،رات دس بجے تک تو آگ لگ چکی تھی،کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟

گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں،عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے،سپریم کورٹ کا وکیل ہونا ایک اعزاز ہے، دو وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا،اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے،دس ہزار بندے بلاکر دو لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی،فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے،جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے،عدالت اس کیس میں بہت تحمل سے کام لے رہی ہے،عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے،عمران خان نے تفصیلی جواب کیلئے وقت مانگاہے،عمران خان کو پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں،جواب عمران خان کے دستخط کیساتھ ہونا چاہیے۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی سمیت عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے،فیصل فرید چوہدری کے مطابق ہدایت اسد عمر سے لی تھیں،فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا،بابر اعوان کے مطابق عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی،سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا،دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں،

عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کر چکی ہے،جلسے کے لیے مختص جگہ سے گزر کر عمران خان جناح ایونیو آئے،بلیو ایریا میں عمران خان نے تقریر صبح 7:30 پر کی۔بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی جگہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ فیصل چوہدری نے عدالتی ہدایت پر بابر اعوان سے رابطہ کیا تھا،وکلاء نے کہا تھا عمران خان کے پاس اٹک جانا ممکن نہیں،عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا،حکومت نے وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا،بیس منٹ انتظار کرکے وکلاء نے میڈیا سے گفتگو کی اور چلے گئے،

عمران خان سے ملاقات کروانے کے لیے سہولت دینے کا حکم بلاوجہ نہیں تھا، وکلاء کے پاس ہیلی کاپٹر ہوتا تو عمران خان کے پاس چلے جاتے،بابر اعوان اور فیصل چوہدری جو کرسکتے تھے کیا،ہر احتجاج سے عوام کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔حکومت نے ملاقات کی سہولت ہی نہیں دی ہدایت کیسے لیتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گرائونڈ کا کہا تھا،عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایچ نائن جانے والے راستے بند ہیں،تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا،عدالت نے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا،عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔وکیل فیصل چوہدری نے ایک موقع پر عدالت کو بتایا کہ پچیس مئی کی سماعت چار حصوں پر مشتمل تھی،پہلے حصے میں ضلعی انتظامیہ کو بلایا گیا تھا،بارہ بجے مجھے عدالت میں بلاکر رابطہ کی ہدایت کی گئی،

عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں،بابر اعوان اوراسد عمرسے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کاروائی سے آگاہ کیا،اسد عمر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں،اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا،اسد عمر نے بتایا کہ انتظامیہ کو ایچ نائن گرائونڈ کی درخواست دی ہے،ریڈزون کا آغاز ڈی چوک سے ہوتا تھا،عدالتی حکم کے مطابق عمران خان سے ملاقات ہوتی تو قیادت کو آگاہ کرتے،پچیس مئی کی شام حالات بہت کشیدہ تھے،عدالت نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے بھی منع کیا تھا۔

چیف جسٹس نے ایک موقع پربابر اعوان اور فیصل چوہدری کو مخاطب کرکے ہدایت کی کہ عدالت سے جو بھی بات کریں وہ سچ پر مبنی ہونی چاہیے،اگر کوئی مسئلہ ہو تو عدالت کو فوری آگاہ کرنا چاہئے،جو کچھ 25 مئی کے دن ہوا وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔بعد ازاں عدالت عظمی نے عمران خان سے ہفتے تک اپنے دستخطوں پر مشتمل جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہفتے کو آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔