اسلام آباد۔6اکتوبر (اے پی پی):موڈیز نے پاکستان کیلئے نظرثانی شدہ ریٹنگ جاری کی ہے جس میں اس نے خود مختار کریڈٹ ریٹنگ کو بی 3 سے کم کرکے سی اے اے 1 کر دیا ہے۔ موڈیز کی جانب سے ریٹنگ ایکشن کا وزارت خزانہ نے سختی سے مقابلہ کیا ہے کیونکہ موڈیز کی جانب سے ریٹنگ ایکشن وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہماری ٹیموں کے ساتھ پیشگی مشاورت اور ملاقاتوں کے بغیر یکطرفہ طور پر کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جمعرات کو یہاں جاری بیان کے مطابق موڈی کی جانب سے ریٹنگ ایکشن کی اطلاع کے بعد وزارت خزانہ نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مودیز کی ٹیم کے ساتھ دو اجلاس کئے جن میں ڈیٹا اور معلومات کا اشتراک کیا گیا جس میں واضح طور پر موڈیز کی ریٹنگ ایکشن سے متصادم صورتحال دکھائی دیتی ہے۔
وزارت خزانہ معاشی اور مالی حالات کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد یہ بتانا چاہتی ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں حکومتی پالیسیوں سے مالیاتی استحکام لانے میں مدد ملی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اپنی بیرونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے کافی لیکویڈیٹی اور فنانسنگ کے انتظامات ہیں۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہے جس کا تسلسل ملک کی مالیاتی نظم و ضبط، قرضوں کی پائیداری اور اپنی تمام ملکی اور بیرونی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت کی تصدیق اور اعتماد پر مبنی ہے۔
ملک آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے پانے والے معاہدوں پر قائم ہے۔موڈیز کے پاس دستیاب معلومات میں خلاء کی وجہ سے موڈیز کی ”قریبی اور درمیانی مدت کے معاشی نقطہ نظر میں خرابی” صحیح صورتحال نہیں دکھاتی ہے اور اس کے تخمینے کا استعمال بنیادی اصولوں پر مبنی نہیں ہے۔
اس طرح سیلاب کی معاشی لاگت کا 30 بلین امریکی ڈالر کا تخمینہ قبل ازوقت ہے کیونکہ اعدادوشمار ابھی بھی ورلڈ بینک اور دیگر شراکت داروں کے تعاون سے مرتب کئے جا رہے ہیں تاکہ شفافیت اور درستگی کو یقینی بنایا جا سکے اور اعدادوشمار کی تصدیق کے بعد دستیاب ہو جائیں گے۔
اس طرح اس وقت جی ڈی پی کی شرح نمو پر پڑنے والے اثرات کا مکمل اور درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور اس لئے موڈی کی جانب سے جی ڈی پی کی شرح 1-0 فیصد پر نظرثانی کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ اسی طرح معاشی نقصانات کو مالیاتی خسارے میں تبدیل کرنے کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔
اخراجات کے محاذ پر اور وہ بھی کئی سالوں میں حکومت بڑے پیمانے پر عوامی بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو میں شامل ہو گی، فوری طور پر موجودہ اخراجات میں اضافہ کو دوبارہ مختص کرنے اور بجٹ شدہ فنڈز کی دوبارہ تخصیص کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے اس طرح بڑھتے ہوئے خسارے کے خطرے کو کم کیا جا رہا ہے۔
محصولات کے محاذ پر برائے نام جی ڈی پی میں اضافہ سے محصولات میں کسی بھی کمی کی تلافی کا امکان ہے۔حالیہ کثیر الجہتی ملاقاتوں کے دوران حکومت کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے 2.5 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کے اضافی فنڈنگ کے وعدے موصول ہوئے ہیں۔ اسی طرح ورلڈ بینک نے بھی رواں مالی سال میں انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں کیلئے تقریباً 1.3 بلین امریکی ڈالر کی اضافی فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے۔
یہ مالی سال کے آغاز میں وزارت کے فنانسنگ پلان کے علاوہ ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی اپیل پر 4 اکتوبر 2022ء کو جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں ممالک نے 816 بلین امریکی ڈالر کے فنڈز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ نتیجتاً ہم توقع کرتے ہیں کہ اس سال نومبر میں پاکستان کی لیکویڈیٹی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بیرونی شعبہ میں مزید بہتری آئے گی۔
پاکستان کے قرضوں کی تنظیم نو کے تاثر کی واضح طور پر تردید کی جاتی ہے کہ کیونکہ فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ہی اس پر عمل کیا جا رہا ہے جیسا کہ وزیر خزانہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ کچھ اہم نمبرز سیلاب کے بعد کے منظرنامہ میں معیشت کی کارکردگی کو سمجھنے میں مزید مدد کر سکتے ہیں۔
یہ واضح رہے کہ ستمبر مالی سال 23ء میں ایف بی آر کے ٹیکسوں میں تقریباً 28 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح زراعت اور لائیو سٹاک سمیت معیشت کے مختلف شعبوں کی حالیہ سیلاب کے بعد کی کارکردگی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے پر اس کے اثرات موڈیز کے اندازے کے مقابلہ میں معتدل رہنے کا امکان ہے۔
اجناس کی قیمتیں خاص طور پر خام تیل، ایک ماہ پہلے کے مقابلہ میں کم ہوئی ہے، اس سے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ مالی سال 23ء کے پچھلے مہینوں کے دوران خسارے کا نیچے کی طرف رجحان پہلے ہی بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا جا چکا ہے۔
ملک کی مجموعی صورتحال کو بالخصوص سیلاب کے بعد کے منظرنامہ میں حکومت کی جانب سے امداد اور بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور عالمی برادری کی طرف سے امداد اور وعدوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جن میں بحالی اور تعمیرنو کے مرحلہ میں کثیر الجہتی اور دوطرفہ بھی شامل ہیں۔ وزارت خزانہ کو سختی سے لگتا ہے کہ پاکستان کی ریٹنگ میں کمی واقعی پاکستان کے معاشی حالات کی عکاسی نہیں کرتی۔