گلوبل وارمنگ کا عالمی سطح پر نوٹس لیا جانا چاہئے، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ،سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف

192
گلوبل وارمنگ کا عالمی سطح پر نوٹس لیا جانا چاہئے، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ،سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف

اسلام آباد۔13ستمبر (اے پی پی):سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ گلوبل وارمنگ عالمی مسئلہ ہے اور اس کا عالمی سطح پر ہی نوٹس لیا جانا چاہئے،پاکستان سمیت ترقی پذیرممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں جن ممالک کا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج میں بڑا حصہ ہے انہیں اس سلسلے میں اپنے نظام پر نظرثانی کرنی چاہئے، اگر دنیا نے گلوبل وارمنگ کے معاملے پرقابو پانے کےلئے موثر اقدامات نہ اٹھائے تو صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی،پاکستان نے قصور وار نہ ہونے کے باوجودحالیہ سیلابوں اور بارشوں سے ہونے والی تباہی کی صورت میں ایک بھاری قیمت ادا کی ہے، عالمی برادری اس صورتحال کا ادراک کرے۔

منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں بین الپارلیمانی یونین کے ایشیا پیسیفک کے ریجن کے تیسرے سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے تمام پارلیمنٹیرینز کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ یہ سیمینارپاکستان کی قومی اسمبلی اورہزاریہ ترقیاتی اہداف کے حصول کےلئے قائم پارلیمانی ٹاسک فورس کی انتھک کاوشوں سے منعقد کیا گیا ہے۔

انہوں نے بین الپارلیمانی یونین کے صدر و رٹے پچیکو اور آئی پی یو کی پوری ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الپارلیمانی یونین 1989 میں قائم ہوئی ، یہ ادارہ عالمی پارلیمانی برادری کا ایک اہم فورم ہے جو دنیا میں موثر جمہوری نظام کےلئے اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس سیمینار میں ایشیا پیسیفک خطے سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز اور مندوبین کوخطے میں چیلنجزکے تناظرمیں جامع ترقی کے تصورجیسے موضوعات پرغورو فکر کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، بھوک اورغذائیت کی کمی نوجوانوں کےلئے معیاری تعلیم اور تمام طبقات تک صحت کی مساوی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے جیسے مسائل کے حوالے سے تمام پارلیمنٹیرینز کوموثر قانون سازی اور دیگر اہم اقدامات اٹھانے کےلئے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سیمینار ہمیں2030 تک ہزاریہ ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کےلئے قومی اورعلاقائی حکمت عملیوں کا از سرنو جائزہ لینے کا ایک بروقت موقع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ19 جیسی وبا کی وجہ سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیرممالک کو بڑے سماجی و اقتصادی جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثر ہوکر مختلف خطوں میں شدید خشک سالی کی صورتحال اور بعض خطوں میں شدید بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایشیا پیسیفک ممالک کےلئے اس اہم سیمینار کی میزبانی ایک نازک موڑ پرکررہا ہے کیونکہ صرف چند روز قبل ہمارے شمالی پہاڑوں میں مون سون کی شدید بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے سیلاب آیا جس سے 1300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور33 ملین افراد بے گھر ہوئے تقریباً30 ارب ڈالر مالیت کے مکانات، سڑکیں، ریلوے کا نظام ، پل ، مویشیوں اور فصلوں کا نقصان ہوا۔

انہوں نے سیمینار کے تمام شرکا سے گزارش کی کہ وہ انسانی سلامتی کےلئے اس سنگین عالمی موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا میں تباہی مچارہی ہیں، یور پ 500 سالوں میں اپنی بدترین خشک سالی کا سامنا کررہا ہے، چین کو گرمی کی غیرمعمولی لہر کا سامنا ہے جس سے دریا اور جھیلیں خشک ہوگئی ہیں جبکہ ایک امریکی ریاست کے شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ گھر خالی کردیں کیونکہ یہاں مزید سیلاب کا خطرہ ہے،2021کا موسمیاتی تبدیل رسک انڈیکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگراس کے باوجود موسمیاتی بحران کا سب سے زیادہ خطرہ رکھنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر انہوں نے سیلاب زدہ علاقو ں کا دورہ کیا ہے ۔ انہوں نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج پاکستان کواس صورتحال کا سامنا ہے کل اس کی جگہ کوئی اورملک بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی صورتحال پرعالمی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس موقع پر جی20ممالک پر زوردیا کہ وہ اپنے قومی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان جیسے موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کےلئے قرضوں سے نجات کے نئے طریقہ کار کے تعین کی ضرورت پر بھی زوردیا ہے جس کے تحت انہو ں نے مقروض ممالک کے قرضوں کے تبادلے کی حمایت کی اورکہا کہ مقروض قوم بیرونی قرضوں کی ادائیگی جاری رکھنے کی بجائے اپنے ماحول کے منصوبوں پر وہ رقم خرچ کرکے ان قرضوں کی ادائیگی کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا بھرکے منتخب نمائندوں سے اس معاملے پر فوری کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا اورکہا ہے کہ یہ انصاف کا سوال ہے کہ پاکستان وہ قیمت چکا رہا ہے جس کا وہ ذمہ دار ہی نہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان اورہمارے بنیادی انفراسٹرکچر جس میں سڑکیں، مکانات، سکول اور بنیادی صحت کے مراکز کی تباہی شامل ہے، یہ صورتحال ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس سارے نظام کی بحالی کےلئے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی بین الپارلیمانی یونین کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے جمہوری روایات کو مستحکم بنانے اور پائیدار ترقیاتی اہداف 2030 کے حصول کےلئے اپنا موثر کردار ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے اور ارکان پارلیمنٹ کوعوامی نمائندگی کے اختیارات کو استعما ل کرتے ہوئے حکومتوں کی نگرانی اورقانونی سازی کے حوالے سے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے کمزور طبقات کی بہتری اورانسانی آزادیوں کو یقینی بنانے کےلئے اپنا ہرممکن کردار ادا کرنا چاہئے۔

انہوں نےکہا کہ میں توقع کرتا ہوں کے اس سیمینارکے اعلامیہ میں قدرتی آفات سمیت معاشی اوراقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کےلئے ترقی پذیرممالک کےلئے ایک روڑ میپ وضع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بین الپارلیمانی یونین کے صدر سے درخواست کی ہے کہ روانڈا میں ہونے والے آئی پی یو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے خصوصی ایجنڈے کے تحت ترقی پذیر ممالک کی معیشت پرموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے معاملے پرغورکیا جائے ۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آئی پی یو کے صدر نے ہماری یہ درخواست منظور کرلی ہے۔

قبل ازیں پارلیمانی قومی ٹاسک فورس کی کنوینئر رومینہ خورشیدعالم نےسیمینار میں مہمانوں کو خوش آمدیدکہتے ہوئےکہا کہ کووڈ، موسمیاتی تبدیلی اور خطے میں تناؤ کی وجہ سے ایس ڈی جیز کے حصول کیلئے صورتحال بدلتی جا رہی ہے،اس وقت پائیدار ترقی کے حصول میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے،کاربن کا اخراج، لاکھوں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا، بھوک، غربت ،مختلف بیماریاں ایسے چیلنجز ہیں جسے دنیا کو سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ابھی ہم نے چیلنجز پر قابو پانے کیلئے کچھ اقدامات نہیں کئے تو صورتحال مشکل تر ہو جائے گی،چیلنجز پر قابو پانے کیلئے تمام ممالک کو ساتھ ملکر کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان بہت زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے،آج پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے کل کسی اور ملک کو اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،لیکن ہم نے اس وقت کا انتظار نہیں کرنا کہ کسی اور ملک کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مشکل حالات آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی شمعون ہاشمی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات سے کرہ ارض کوشدید خطرہ ہے اور یہ خطرات سرحدوں کو نہیں دیکھتے اس لئے عالمی سطح پرہم سب کو ملکر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ اجلاس میں سیمینار کے شرکا کو پاکستان میں سیلاب اورموسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں پرمبنی دستاویزی فلم دکھائی گئی