گلگت بلتستان کی رسیلی چیری : برآمدی منڈی میں خوشگوار اضافہ ۔ کاشتکاروں کے لیے خوشحالی کی نوید

334

سلطان شعیب

گلگت۔30جون (اے پی پی):گلگت بلتستان کا پرکشش خطہ اپنی حسین وادیوں، دلکش سیاحتی مقامات، دلفریب جھیلوں ، بلند و بالا پہاڑوں اور مقامی باشندوں کی مہمان نوازی میں بلا شبہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ اپنی مخصوص آب و ہوا اور زرخیز زمین کے سبب خوبانی، ناشپاتی، سیب، انگور، شہتوت اور چیری سمیت مختلف اقسام کے ذائقہ دار پھلوں کے لئےدنیا بھر میں اپنی ایک خاص پہچان بھی رکھتا ہے۔ یہاں کی خوش ذائقہ اور رسیلی چیری دنیا کی بہترین اقسام میں سے ایک ہے۔ گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے پر فضاء سیاحتی مقام راکاپوشی ویو پوائنٹ پر تیسرا قومی چیری فیسٹیول منعقد ہوا جس نے مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطح ہر خوب پزیرائی حاصل کی۔اس کامیاب فیسٹیول کے انعقاد کی وجہ سے گلگت بلتستان کے چیری کی کاشت سے منسلک کسانوں اور مقامی کاروباروں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی رسیلی چیری کو پہلے سے بہتر انداز میں متعارف کروانے اور اچھی قیمت پر فروخت کرنے میں مدد ملے گی۔گلگت بلتستان کی چیری اپنے میٹھے ذائقے، رسیلے پن اور اعلیٰ غذائیت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ گلگت بلتستان کے کئی علاقے جیسے ہنزہ، نگر، یاسین، پھنڈر اور نومل بین الاقوامی سطح پر چیری پیدا کرنے والے مشہور علاقے ہیں۔ اپنی مثالی آب و ہوا اور زرخیز زمین کے لیے معروف ان علاقوں میں اعلیٰ قسم کی چیری پیدا ہوتی ہے۔

راکاپوشی ویوز پوائنٹ ڈسٹرکٹ نگر میں 2 روزہ تیسرے قومی چیری فیسٹیول کے دوران ڈپٹی کمشنر نگر عطا الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سال صرف ضلع نگر سے تقریباً 2 ہزار ٹن چیری کو ملکی مارکیٹوں میں ارزاں قیمت پر فروخت کیا گیا ہے جبکہ یہاں کی چیری کی بین الاقوامی منڈیوں میں بہت زیادہ قیمت ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اہم پیش دفت اس وقت ہوئی جب گلگت بلتستان نے چین کو تازہ چیری کی پہلی کھیپ بھیجی جو اس کی زرعی برآمدات میں ایک اہم موقع ہے۔ یہ کامیابی 2022 میں دونوں ممالک کے درمیان پلانٹ ہیلتھ کے معاہدے کی بدولت ممکن ہوئی۔ چین کی چیری مارکیٹ کی مالیت 3 ارب ڈالر ہے اور اسے ہر سال 350,000 ٹن چیری کی ضرورت پڑتی ہے جو پاکستانی کاشت کاروں کو ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔گلگت بلتستان میں ہاشوان گروپ کے سی ای او اور چینی کسٹمز سے منظور شدہ گلگت رحیم آباد میں سب سے بڑے چیری فارم کے مالک ارمان شاہ نے زرعی برآمدات میں پاکستان اور چین کے درمیان شراکت داری کے فوائد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی چیری پہلے ہی مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں فروخت ہورہی ہے،اس سال برآمدی قیمتیں 700 سے 1000 روپے فی کلو کے درمیان رہی۔ ارمان کے کولڈ سٹوریج کی سہولت کی وجہ سے اب گلگت بلتستان میں چیری سیزن ختم ہونے کے بعد بھی چیری کی برآمد ممکن ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی پیداوار کے معیار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے چیری باغات کی چینی کسٹمز کی طرف سے منظوری خطے میں موجود اعلیٰ معیار کی چیری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گلگت رحیم آباد میں 100 سے زائد چیری کے باغات،ایک بین الاقوامی سطح کا کولڈ سٹوریج اور پیکنگ سینٹر چین کی جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جو بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ اور حفاظتی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اس سرٹیفیکیشن کا مطلب ہے کہ گلگت بلتستان کے کاشت کار اپنی چیری کی بہتر قیمت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں سالانہ تقریباً 5,000 ٹن چیری پیدا ہوتی ہے لیکن چینی مارکیٹ تک رسائی سے پیداوار میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ماہرین اور کسان چیری کی برآمدات کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ گلگت بلتستان کے ماہر باغبانی ڈائریکٹر ایگریکلچر ضلع نگر غلام عباس کے مطابق چین اور پاکستان کے درمیان چیری کی برآمد کے لیے جو معاہدہ کیا گیا ہے اس سے معیشت کو فروغ ملے گا،گلگت بلتستان کے کسانوں میں خوشحالی آئے گی اور ان کی مالی حالت میں ایک خوشگوار اضافہ ہوگا۔
گلگت کے ایک مقامی چیری کاشتکار محمد حسین مارکیٹ کے نئے مواقع کے بارے میں اپنے جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ اس معاہدے کے بعد ان کی چیری چین اور دیگر ممالک میں یکساں طور پر مقبول ہوگی اور گلگت بلتستان کے کسان خوشحال ہونگے۔ محمد حسین کا مزید کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت پاکستان کو مقامی کسانوں کو چیری کی پیداوار کی جدید تکنیک سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ چیری کی برآمد کے لیے معاہدے کرنا ہونگے جیسا کہ چین اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ اس سے یقینا ملکی معیشت مضبوط ہوگی ۔ ضلع غذر چٹور کھنڈ سے تعلق رکھنے والے چیری کے مشہور و معروف کسان راجہ میر وزیر میر نے 2020 میں آلو کی فصل کو 500 سے زیادہ چیری کے پودوں سے بدل کر ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا جو بعد میں ان کے لیے انتہائی فائدے مند ثابت ہوا کیونکہ اب وہ اپنی چیری کو فروخت کر کےسالانہ 50 لاکھ سے زیادہ روپے کماتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی آمدنی میں بہت اضافہ ممکن ہوا ہے۔

میر وزیر میر کی کامیابی سے متاثر ہو کر گلگت بلتستان کے متعدد کسانوں نے اپنی زمینوں میں دوسرے فصلوں کی کاشت کی بجائے چیری کی کاشت شروع کر دی ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ چیری کی کاشت کو اپنا کر ان کسانوں نے نہ صرف اپنی آمدن کو بڑھایا ہے بلکہ خطے کی اقتصادی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔گلگت بلتستان میں چیری کی کاشت کی کامیابی کے بعد جہاں زیادہ تر کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں پر چند مقامی باشندے پریشان بھی ہیں۔ ان کے مطابق مقامی منڈیوں میں چیری کی قیمت بڑھ گئی ہے، ایک کلو کی قیمت اب 600 روپے ہو گئی ہے، جو صرف ایک سال پہلے 300 روپے تھی۔ حامد خان کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں نلتر سے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ رواں سال گلگت شہر کی مارکیٹوں میں مقامی چیری کی قیمت گزشتہ سال کی نسبت دو گنا ہوگئی ہے۔مہنگائی کی وجہ سے گزشتہ سال کی نسبت اب بچوں کے کھانے کے لئے چیری نہیں خرید سکتا۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان ایک زرعی تبدیلی کے دہانے پر ہے۔ یہاں کی رسیلی اور ذائقہ دار چیری کی چینی اور دیگر ممالک کی منڈیوں تک رسائی سے مقامی کسانوں کو نا صرف اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہونگے۔گلگت بلتستان کی چیری کی صنعت علاقے کی معیشت میں انقلاب برپا کرنے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا بھرپور ڈالنے کے لیے تیار ہے۔