
کراچی۔ 28 اکتوبر (اے پی پی):نگراں وفاقی وزیر توانائی و پٹرولیم محمد علی نے گیس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے پر تاجر برادری کے تحفظات سننے کے بعد یقین دلایا کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں گیس کے نرخوں میں کمی لانے کی پوری کوشش کریں گے جنہیں گردشی قرضوں میں اضافے کو روکنے کے لئے بڑھایا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گیس کا پورا شعبہ کئی سالوں سے مسلسل 400 ارب روپے سالانہ کے نقصان سے دوچار ہے اور گزشتہ سال یہ نقصانات461 ارب روپے تک پہنچ گئے جس کے نتیجے میں گیس سیکٹر کا مجموعی نقصان 2100 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے لہذا گیس کے نرخوں میں اضافہ تجویز کیا گیا۔
صنعتوں کے لیے پچھلے بجلی اضافی کھپت کے 7 ارب روپے جاری کرنے کے لیے کام جاری ہے جس کا سیکرٹری توانائی نے وعدہ کیا تھا جبکہ وزارت بجلی کی اضافی کھپت کے حوالے سے اس سال موسم سرما پیکیج متعارف کرانے پر بھی کام کر رہی ہے۔ ہفتہ کو جاری اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی، صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر باری، سابق صدور، منیجنگ کمیٹی اراکین اور ساتوں انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز کے نمائندے بھی موجود تھے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ کوئی بھی حکومت مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا نہیں چاہتی لیکن ہمیںحقائق کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے ۔اوگرا کا 1350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا تعین خالصتاً پورے سال کی اوسط قیمت پر مبنی ہے جو صرف قدرتی گیس کے نقصانات کو پورا کرتا ہے اور اس میں ایل این جی کی قیمت شامل ہی نہیں جو زیادہ مہنگی ہے۔ای سی سی کے گیس ٹیرف میں اضافے کے فیصلے سے60 فیصد گھریلو صارفین پر400 روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ امیر طبقے کے لیے گیس ٹیرف ایل این جی کی قیمتوں کے برابر لایا گیا ہے۔
تندور چلانے والوں کے نرخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ کمرشل صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں معمولی اضافے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ ان میں اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں جبکہ کھاد کے شعبے میں معمولی اضافے کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ اناج کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک صنعتوں کا تعلق ہے حکومت نے گیس ٹیرف کو تقریباً 8 ڈالر تک بڑھا کر صنعتوں، برآمد کنندگان کو مسابقتی رکھنے کو یقینی بنایا ہے جو کہ حریف ممالک کے قریب تر ہے جیسا کہ بھارت میں گیس ٹیرف9 ڈالر جبکہ بنگلہ دیش میں8.25 ڈالر ہے۔
یہ اقدام شمال اور جنوب کے درمیان گیس ٹیرف کے فرق کو کم کرنے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔وزیر توانائی نے مزید کہا کہ اس سال گیس کی فراہمی کی صورتحال کم و بیش وہی رہے گی جو پچھلے سال تھی لیکن ایس ایس جی سی کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طریقہ کارپر کام کرے جو نہ صرف سردیوں کے موسم میں بلکہ پورے سال ہر قسم کی صنعتوں کو ہفتے میں پانچ دن گیس کی بلارکاوٹ فراہمی کو یقینی بنائے۔گزشتہ سال عام صنعتیں چار ماہ تک بند رہیں اور برآمدی صنعتوں کو سپلائی میں 50 فیصد کمی کی گئی۔
ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سال دوبارہ ایسا نہ ہو اور ہر قسم کی صنعتیں موسم سرما میں ہفتے میں پانچ دن کام کرتی رہیں۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو سراہا جو گھریلو صارفین کو گیس کے غیر ضروری استعمال سے گریز کرنے پر مجبور کرے گا جس کے نتیجے میں پیداواری استعمال کے لیے صنعتوں کو زیادہ گیس کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔
انہوں نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ برآمدی اور عام صنعتوں کے لیے بالترتیب 86 فیصد اور 117 فیصد گیس ٹیرف بڑھانے کے ای سی سی کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے۔اوگرا نے ریونیو کی ضروریات کے مطابق گیس ٹیرف میں بہت کم اضافہ یعنی 1350.68 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا تعین کیا لیکن وزارت نے برآمدی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف 2050 روپے اور عام صنعتوں کے لیے 2600 روپے کی سفارش کی ہے جو کہ تاجر برادری کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت نے سپورٹ صنعتوں کو جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا صنعتی شعبے کو یہ پیغام جاتا ہے کہ برآمدات کو جاری رکھنا، فروغ دینا شاید حکومت کی ترجیح نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی کم فراہمی کی وجہ سے صنعتوں کی استعداد کار 70 فیصد سے زیادہ نہیں ہے یعنی 30 فیصد کم پیداوار اور اس کا مطلب یہ ہے کہ صلاحیت کے باوجود 16 فیصد کم برآمدات جو تقریباً 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوں گی۔ اگر صنعتوں سے کراس سبسڈی کا بوجھ ہٹا دیا جائے تو یقینی طور پر ٹیرف میں اضافے کے بجائے کمی کی گنجائش ہوگی۔
انہوں نے ایس ایس جی سی کے علاقوں میں صنعتوں کو گیس کی قلت سے نمٹنے کے لیے مطالبہ کیا کہ ایس این جی پی ایل کو غلطی سے دی گئی 211 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایس ایس جی سی کو واپس کی جائے جبکہ بلوچستان میں گیس کی بڑھتی ہوئی طلب جو سردیوں کے موسم میں 200 ایم ایم سی ایف ڈی تک پہنچ جاتی ہے اسے اکیلے ایس ایس جی سی کو پورا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی طرف سے تناسب سے فراہم کرنا چاہیے۔ایس ایس جی سی 110 ایم ایم سی ایف ڈی لیتا ہے
جبکہ ایس این جی پی ایل سوئی سے 280 ایم ایم سی ایف ڈی لے رہا ہے لہذا ایس ایس جی سی پر 54 ایم ایم سی ایف ڈی کا بوجھ ڈالا جانا چاہئے اور باقی 146 ایم ایم سی ایف ڈی سردیوں کے موسم میں ایس این جی پی کو فراہم کرے۔یہ واحد اقدام ایس ایس جی سی کو اپنے علاقے میں سپلائی کو آسان بنانے میں مدد دے گا۔بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے زور دیا کہ ان نرخوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں زندہ رہ سکیں جو برآمدکنندگان کے لیے سپلائی چین کا ایک لازمی حصہ ہیں اور درآمدی متبادل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔