اسلام آباد۔2دسمبر (اے پی پی):معروف فرانسیسی اسکالر کرسٹوف جعفریلوٹ نے کہاہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے سماجی ، ثقافتی ،سیاسی اوراقتصادی مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ انہوں نے یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں انڈیا اسٹڈی سینٹر کے زیراہتمام "مودی کے ہندوستان میں ہندوستانی اقلیتوں کی حالت زار” کے موضوع پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ تقریب میں ماہرین تعلیم، پریکٹیشنرز، سفارت کار، طلبا اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
انڈیا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ بی جے پی کی تمام ہندو ٹکڑوں کو اکٹھا کرکے ایک ہندو پارٹی بنانے کی کوشش ناکام ہو جائے گی کیونکہ ذیلی ذاتوں نے ہر ریاست میں اپنی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنانا شروع کر دی ہیں۔ اکیلے ہندوں کے پاس 1,600 جاٹیاں ہے ، جن میں متعدد ذات پات کی تقسیم ہے اور انہیں طویل عرصے تک ایک ساتھ رکھنا بہت مشکل ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق 2014 کے بعد 38 نئی پارٹیاں رجسٹر ہوئیں ۔ ان جماعتوں کو متحد رکھنے کے لیے بی جے پی کو ہندوستان کے اندر اور باہر دشمن کی ضرورت ہے۔
ڈی جی آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے کہاکہ ہندوستان گہرے پولرائزیشن، زیادہ مذہبی عدم برداشت اور بڑھتے ہوئے تشدد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ، چوکس گروہوں کا بڑھنا، بار بار ہجومی تشدد، گرجا گھروں اور مساجد کو مسمار کرنا، "لو جہاد” اور "گھر واپسی” جیسی اسکیمیں، اور قانون سازی کے اقدامات جیسے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز اینڈ سٹیزن ترمیمی ایکٹ (سی اے اے اس کے مظہر تھے۔ ہندوتوا نظریہ کا اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوآبادیاتی آباد کاری کے منصوبے کے ذریعے مقامی مسلم اکثریت کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کیاجارہے ۔ بی جے پی کے تحت ہندوستان میں بھی اسلامو فوبیا میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے
۔ پروفیسر جعفرلوٹ نے اپنی پریزنٹیشن میں نشاندہی کی کہ کس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کو 1947 سے لیکر اب تک مسائل کاسامنا ہے ، بی جے پی کے تحت لوک سبھا سمیت ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی شدید حد تک کم ہو رہی ہے۔ 1980 سے 2019 تک لوک سبھا میں مسلمانوں کی شرکت 9 فیصد سے گھٹ کر صرف 4.6 فیصد رہ گئی ۔ یوپی جیسی بڑی ہندوستانی ریاستوں میں مسلمانوں کو سیاسی پسماندگی کا سامنا ہے ۔
پروفیسر جعفرلوٹ نے مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان بڑھتے ہوئے سماجی و اقتصادی خلیج کو بھی اجاگر کیا اورکہاکہ ہندوستان میں مسلمان دیگر پسماندہ طبقات کے مقابلے میں ادارہ جاتی طور پر زیادہ محروم ہیں ۔ مسلمانوں کی دولت میں حصہ صرف 9.5 فیصد جبکہ و اونچی ذات کے ہندووں کا 36.1 فیصد اعلی تعلیم کے شعبہ میں مسلمانوں میں زبردست کمی آئی ہے اور بی جے پی کی حکومت میں یہ فرق بہت بڑھ گیاہے ۔ 2021-22 میں، پوری مسلم آبادی کا صرف 19.8 فیصد اعلی تعلیمی اداروں میں داخل ہوا۔ یہ عوامل اجتماعی طور پر مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی محرومیوں کا سبب بنے تھے۔
ماہرین نے بھارت کے سماجی و اقتصادی شعبوں، اداروں اور تعلیم میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے پسماندگی پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر جعفرلوٹ نے دولت کے فرق، ملازمتوں میں کمی، تعلیمی مواقع میں کمی، اور ہندوستان میں اردو زبان کو لاحق خطرات کی مزید وضاحت کی۔ اس بحث میں عیسائیوں سمیت دیگر اقلیتی برادریوں کو درپیش چیلنجوں اور عالمی سطح پر ہندوتوا نظریہ کو پھیلانے میں سمندرپاربھارتی شہریوں کے کردار پر بھی بات ہوئی۔ ڈی کشمیرائزیشن کے جاری عمل، جنوبی ہندوستان میں ہونے والی پیش رفت اور اکھنڈ بھارت کے مسئلہ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پروفیسر جعفرلوٹ نے زمینی حقائق کو سمجھنے کی اہمیت اور موجودہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے جاری پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات پر زور دیا۔گول میز کانفرنس کا اختتام سفیر خالد محمود، چیئرمین آئی ایس ایس آئی کے اختتامی کلمات کے ساتھ ہوا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=415914