بریسٹ کینسر کی تاخیر سے تشخیص سے پاکستان میں سالانہ 44 ہزار اموات ہوتی ہیں، معذور افراد کو ان کی اہلیت اور مہارت کے مطابق ہنر، تربیت اور ملازمتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے، بیگم علوی

98
خصوصی افراد کو قومی دھارے کی اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں، بیگم ثمینہ علوی اسلام آباد۔6دسمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی نے خصوصی افراد کو قومی دھارے کی اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ بننے میں مدد کرنے کے لئے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی افراد کو معاون ٹیکنالوجی اور بحالی کی خدمات تک رسائی فراہم کی جائے تو وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدھ کو یہاں نیٹ ورک آف آرگنائزیشنز ورکنگ ود پرسنز وِد ڈس ایبلٹیز پاکستان (این او ڈبلیو پی ڈی پی) کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ خصوصی افراد کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ ثمینہ علوی نے کہا کہ خصوصی افراد ملک کی آبادی کا 10 سے 12 فیصد ہیں تاہم ان کی معاشرے اور عوامی سطح پر نمائندگی کی کمی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ معذوری کے بارے میں منفی رویوں کی وجہ سے خاندانوں نے اپنے ایسے افراد کو گھروں تک محدود رکھا اور ان کی بیرونی سرگرمیوں سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، عوامی عمارتوں اور پارکوں میں ریمپس جیسے بنیادی ڈھانچے کی کمی بھی معذور افراد کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہے۔ ثمینہ علوی نے معاشرے میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے مرکزی دھارے کے سکولوں میں ایسے طلباء کو تعلیم فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے اساتذہ کی تربیت اور معاشرے کو حساس بنانے پر زور دیا کہ اگر خصوصی افراد کو معاون ٹیکنالوجی اور بحالی کی خدمات سمیت وسیع مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کے پلیٹ فارم سے خصوصی افراد کو مرکزی دھارے میں لانے کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ایک جامع آگاہی مہم چلائی گئی ہے، اس مہم کو غیر سرکاری تنظیموں، چیمبرز آف کامرس اور میڈیا کی حمایت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے سرکاری اور نجی شعبے کے محکموں بشمول بینکوں، چیمبرز آف کامرس اور ویلفیئر فاؤنڈیشنز پر زور دیا کہ وہ خصوصی افراد کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے جامع پالیسیاں اختیار کریں۔ انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ حکومت اور بینک خصوصی افراد کی مالی خود انحصاری کو یقینی بنانے کے لئے انہیں آسان قرضے فراہم کر رہے ہیں۔ نیز، حکومت یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ایسے طلباء کو وظائف اور فیسوں میں چھوٹ دے رہی ہے۔ ثمینہ علوی نے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کے لئے مختص کوٹہ کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور نجی شعبے پر بھی زور دیا کہ وہ اس کی پیروی کریں۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ این او ڈبلیو پی ڈی پی ایسے افراد کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنر پر مبنی تربیت دے رہا ہے اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
خصوصی افراد کو قومی دھارے کی اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں، بیگم ثمینہ علوی اسلام آباد۔6دسمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی نے خصوصی افراد کو قومی دھارے کی اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ بننے میں مدد کرنے کے لئے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی افراد کو معاون ٹیکنالوجی اور بحالی کی خدمات تک رسائی فراہم کی جائے تو وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدھ کو یہاں نیٹ ورک آف آرگنائزیشنز ورکنگ ود پرسنز وِد ڈس ایبلٹیز پاکستان (این او ڈبلیو پی ڈی پی) کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ خصوصی افراد کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ ثمینہ علوی نے کہا کہ خصوصی افراد ملک کی آبادی کا 10 سے 12 فیصد ہیں تاہم ان کی معاشرے اور عوامی سطح پر نمائندگی کی کمی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ معذوری کے بارے میں منفی رویوں کی وجہ سے خاندانوں نے اپنے ایسے افراد کو گھروں تک محدود رکھا اور ان کی بیرونی سرگرمیوں سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، عوامی عمارتوں اور پارکوں میں ریمپس جیسے بنیادی ڈھانچے کی کمی بھی معذور افراد کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہے۔ ثمینہ علوی نے معاشرے میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے مرکزی دھارے کے سکولوں میں ایسے طلباء کو تعلیم فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے اساتذہ کی تربیت اور معاشرے کو حساس بنانے پر زور دیا کہ اگر خصوصی افراد کو معاون ٹیکنالوجی اور بحالی کی خدمات سمیت وسیع مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کے پلیٹ فارم سے خصوصی افراد کو مرکزی دھارے میں لانے کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ایک جامع آگاہی مہم چلائی گئی ہے، اس مہم کو غیر سرکاری تنظیموں، چیمبرز آف کامرس اور میڈیا کی حمایت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے سرکاری اور نجی شعبے کے محکموں بشمول بینکوں، چیمبرز آف کامرس اور ویلفیئر فاؤنڈیشنز پر زور دیا کہ وہ خصوصی افراد کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے جامع پالیسیاں اختیار کریں۔ انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ حکومت اور بینک خصوصی افراد کی مالی خود انحصاری کو یقینی بنانے کے لئے انہیں آسان قرضے فراہم کر رہے ہیں۔ نیز، حکومت یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ایسے طلباء کو وظائف اور فیسوں میں چھوٹ دے رہی ہے۔ ثمینہ علوی نے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کے لئے مختص کوٹہ کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور نجی شعبے پر بھی زور دیا کہ وہ اس کی پیروی کریں۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ این او ڈبلیو پی ڈی پی ایسے افراد کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنر پر مبنی تربیت دے رہا ہے اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

اسلام آباد۔19نومبر (اے پی پی):خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 44000 خواتین چھاتی کے کینسر کی تاخیر سے تشخیص کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، اگر اس کی تشخیص ہو جائے تو 98 فیصد تک زندہ رہنے کے امکانات ہوتے ہیں اس طرح ہزاروں خواتین اور ان کے خاندانوں کو بچایا جا سکتا ہے،پاکستان میں اس بیماری کی ابتدائی علامات کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔نتیجتاً یہ بیماری خاموشی سے پھیلتی جا رہی ہے اور جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔

وہ اتوار کو پاکستان فارن آفس ویمنز ایسوسی ایشن (پفوا) کے سالانہ چیریٹی بازار کے موقع پر خطاب کر رہی تھیں۔ اس موقع پر اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں کی بیگمات نے اپنے اپنے ممالک کی ثقافت، کھانوں اور فن پاروں کی عکاسی کرنے والے اسٹالز لگائے۔چیریٹی بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی وزارت خارجہ کے کم آمدنی والے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جائے گی۔خاتون اول بیگم علوی نے کہا کہ انہوں نے چھاتی کے کینسر سے متعلق ایک جامع اور ملک گیر آگاہی مہم شروع کی ہے۔

ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والی خواتین تک اپنا پیغام پہنچانا تھا۔پاکستان میں کینسر کے زیادہ تر کیسز تیسرے یا چوتھے سٹیج میں رپورٹ ہوئے جس کی وجہ سے نہ صرف علاج تکلیف دہ اور مہنگا ہو گیا بلکہ اس کے بچنے کے امکانات بھی کم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور اسکریننگ کی سہولیات کا فقدان ہے یا یہ سہولتیں بہت مہنگی ہیں۔معذور بچوں اور چھاتی کے کینسر کے مسائل کے جلد پتہ لگانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات بہت اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ان میں بہت سی زندگیاں بچانے کی صلاحیت موجود ہے۔

عوامی آگاہی میں پیشرفت کے بارے میں بیگم علوی نے بتایا کہ انہوں نے رِنگ بیک ٹون اور میسجز کی مدد سے ملک بھر میں لاکھوں موبائل صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور اس سال پاکستان میں چھاتی کے کینسر سے متعلق 140 ملین سے زیادہ ایس ایم ایس موبائل صارفین کو بھیجے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں تیسرے اور چوتھے مرحلے میں کینسر کے کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں کینسر کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

اب، میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور اسکریننگ کی سہولیات ملک بھر کے مختلف ہسپتالوں میں رعایتی نرخوں پر فراہم کی جا رہی ہیں اور ان سہولیات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔خاتون اول نے کہا کہ انہوں نے غلط فہمیوں کو ختم کرنے، شمولیت کو فروغ دینے، جامع تعلیم اور بحالی کی خدمات کو فروغ دینے اور معذور افراد کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک مقصد ان کے تئیں معاشرے میں رویے میں تبدیلی لانا،ان کے مسائل کے اعتبار سے ہمارے معاشرے میں حساسیت پیدا کرنا، اور انہیں مرکزی دھارے کا حصہ محسوس کرنا تھا۔

خاتون اول نے معذور افراد کو ان کی اہلیت اور مہارت کے مطابق ہنر، تربیت اور ملازمتوں کی فراہمی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔خاتون اول نے کہا کہ انہوں نے معذوری کے بین الاقوامی ماہرین سے بھی کہا ہے کہ وہ معذور بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کی تربیت کے لیے اپنی توانائیاں دیں۔انہوں نے کہا کہ مختلف صلاحیتوں کے حامل بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ سیکھنے اور بڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ اس طرح وہ سماجی بنیں گے اور معاشرہ بھی ان کی خصوصی ضروریات سے زیادہ آگاہ ہو گا۔

دماغی صحت اور ابتدائی مشاورت کے معاملے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ صحت مند کمیونٹیز کی تعمیر کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور لوگوں کو یہ آگاہی دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ذہنی صحت ان کی مجموعی صحت اور تندرستی کا ایک اہم پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 24 ملین افراد کو ذہنی صحت سے متعلق مشاورت اور خدمات کی ضرورت ہے۔

خاتون اول نے پاکستان میں ذہنی صحت کی سہولیات اور تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی شدید کمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ تربیت یافتہ بیرون ملک مقیم پاکستانی پیشہ ور افراد اور بین الاقوامی ماہرین سے رابطہ قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں لوگوں کی تربیت اور مشورے کے لیے اپنا وقت اور مہارت عطیہ کریں۔ اسی طرح پاکستان میں مصنوعی ذہانت، چیٹ بوٹس اور آئی ٹی ٹولز کا استعمال ذہنی صحت سے متعلق مشاورتی خدمات اور ضرورت مند لوگوں کو ایڈوائزری دینے کے لیے کیا جا رہا ہے

۔انہوں نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ایسے مسائل پر بات کرتے رہیں اور پروگراموں، ٹاک شوز، مارننگ شوز، ڈراموں، نیوز بلیٹنز اور عوامی خدمت کے پیغامات کے ذریعے آگاہی پیدا کرتے رہیں۔ خاتون اول نے پفوا کے اراکین، فارن سروس کمیونٹی، سفارتی کور، اور نجی تنظیموں کو بھی اس تقریب کی کامیابی میں ان کی غیر متزلزل حمایت اور تعاون پر مبارکباد دی۔

انہوں نے سماجی بہبود میں اہم شراکت کے لیے پفوا کی تعریف کی اور کہا کہ سالانہ چیریٹی بازار ان کی غیر متزلزل لگن کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ سالانہ چیریٹی بازار میں دنیا کے مختلف حصوں سے دستکاری اور پکوان پیش کیے جاتے ہیں اور بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی پفوا کی فلاحی سرگرمیوں میں جائے گی۔ انہوں نے پفوا کی سماجی بہبود کی کوششوں کو بھی سراہا۔ سرپرست پفوا شائستہ جیلانی نے کہا کہ یہ تقریب پفوا کے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے عزم کا مظہر ہے۔

پی ایف او ڈبیلیو اےکی صدر شازہ سائرس قاضی نےکہا کہ پفوا گزشتہ 70 سالوں سے ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے لیے کوشاں ہے اور پاکستان میں سیلاب زدگان کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں اور ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔