تنازعہ کشمیر کا تاریخی تناظر اور یوم استحصال

555

ہلال احمد

اسلام آباد۔30جولائی (اے پی پی):پاکستان اور کنڑول لائن کے دونوں جانب سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری 5 اگست کو یوم استحصال منائیں گے، یہ دن بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے تین سال مکمل ہونے پر منایا جارہا ہے۔ بھارت میں برسر اقتدار نریندر مودی کی ہندو فرقہ پرست حکومت کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے رہنمائوں کو انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اسی مذموم سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت نے5 اگست 2019 کو غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کو معطل کرکے کشمیر پر اپنے غیر قانونی فوجی قبضے کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی۔بھارت کے ڈومیسائل اور ملکیتی قوانین مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے اور کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے تبدیل کیے گئے، کشمیری عوام بھارتی حکومت کے ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا ہے۔

بھارتی حکومت کے ان غیر آئینی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرنے کی گھناونی سازش کا حصہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس بات کا جائزہ لینا چایئے کہ سخت قوانین کے نفاذ، وادی کشمیر کو کئی دہائیوں تک فوجی محاصرے میں رکھنے، ہزاروں بے گناہ کشمیریوں اور ان کے حقیقی نمائندوں کو قید کرنے اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے بے دریغ قتل کے باوجود بھارت کشمریوں کے جذبہ آزادی کو کیوں خاموش نہیں کراسکا ہے اور یہ کہ کشمیریوں کے دل میں آزادی کا شعلہ 7 دہائیوں کے بعد بھی روشن ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد میں مضمر ہے۔تاریخی دستاویز کی روشنی میں اگر تنازعہ کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیرکی تقسیم کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے علاقوں کو بھارت میں شامل کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔

اس مقصد کیلئے برطانوی حکومت نے 3 جون 1947ءکو متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد 18 جولائی 1947ءکو آزادی ہند کا قانون پاس کیا گیا۔برصغیر کی تقسیم کیلئے دو بائونڈری کمیشن قائم کئے گئے جن کا کام پنجاب اور بنگال کی سرحدوں کا تعین تھا، اس کام کی نگرانی برطانوی قانون دان سر ریڈ کلف کو سونپی گئی جس نے اصولوں کو نظر انداز کر کے مسلمان اکثریت رکھنے والے پنجاب کے ضلع گورداسپورکی تین تحصیلوں کو بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے نتیجہ میں بھارت کو ریاست جموں و کشمیر پر فوج کشی کیلئے زمینی راستہ ملا۔ کشمیر کو بھارت کے ساتھ ملانے والی واحد شاہراہ ضلع گورداسپور سے ہی گزرتی تھی۔ ریڈ کلف ایوارڈ تیاری کے بعد 12 اگست کو وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو پیش کیا گیا جسے 17 اگست 1947ءکو منظر عام پر لایا گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن، سر ریڈ کلف اور ہندئولیڈروں کی سازش کے باعث مسلم اکثریتی گورداسپور بھارت کا حصہ بن گیا

مسلم اکثریتی گورداسپور بھارت کا حصہ بننے کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کیلئے باقاعدہ سازش رچائی۔ بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی آڑ میں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا مسلمانان ریاست کی خواہشات اور امنگوں کیخلاف تھا۔ بھارتی لیڈروں نے انگریزوں کی حمایت سے سازش کرکے تقسیم ہند کے اصولوں کو کشمیر میں نہیں اپنایا۔27 اکتوبر 1947ءکو تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوا اس روز بھارتی مسلح افواج تمام بین الاقوامی اصول و ضوابط اور قوانین کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے وادی کشمیر میں داخل ہوئیں۔ بھارت کے ہندو انتہا پسند لیڈروں نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اور انگریزوں سے ملکر ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی، بھارتی فوج کشی سے قبل کشمیر کے ایک وسیع علاقے میں مقامی لوگوں اور مجاہدین نے مہاراجہ ہری سنگھ کی وفا دار فوج کو نکال باہر کردیا تھا۔ ہری سنگھ نے دارالحکومت سرینگر سے فرار ہونے کے بعد جموں میں پناہ لے لی اور بھارت کے ساتھ ایک جعلی اور نام نہاد الحاق کیا جس کے فوری بعد بھارت نے بڑے پیمانے پر اپنی افواج کو کشمیر میں داخل کرلیا۔ہری سنگھ کے سرینگر سے فرار سے قبل 24 اکتوبر 1947ءکو مرحوم سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں آزاد کشمیر حکومت قائم کی گئی۔

اس صورتحال کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ نے سرینگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور 26 اکتوبر 1947ءکو بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ ہری سنگھ کی بھارت سے نام نہاد دستاویز الحاق قانونی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ کشمیر کی حکمرانی کھوچکا تھا ۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت اور جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر 1947ءمیں کشمیر کاپاکستان کے ساتھ الحاق فطری بات تھی لیکن کشمیر کی مسلم اکثریت کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا۔ تقسیم برصغیر سے قبل کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس 19 جولائی 1947ءکو سرینگر میں اپنے اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرچکی تھی۔ مسلم کانفرنس کی یہ متفقہ قرارداد لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی آواز تھی کیونکہ 1946ءکے ریاست گیر اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کیلئے مختص کردہ 21 نشستوں میں سے 16 پر مسلم کانفرنس کے امیداواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے نام نہاد الحاق کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں پاس کررکھی ہیں۔ 1947 میں بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو عارضی قرار دیتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت سے کشمیر کا الحاق عارضی اور مشروط ہے اور صورتحال کی بہتری کے بعد جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ریاستی عوام کی آزادانہ مرضی سے کیا جائے گا۔

بھارت نے اقوام متحدہ میں بھی کشمیریوں کے حق آزادی کو تسلیم کیا۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور دیگر بھارتی نیتاﺅں نے بین الاقوامی فورموں، پارلیمنٹ اور کشمیر کے دوروں کے دوران اس وعدے کو نبھانے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود ایک منصوبہ بند طریقے پر کشمیری عوام کے مطالبہ آزادی دبانے کیلئے پورے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران انسانی حقوق کے بے دریغ پامالیاں کی گئیں۔ اکتوبر اور نومبر 1947ءمیں جموں اور اس کے نواحی علاقوںمیں تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو محض اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ اپنی تقدیر پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر پر سات دہائیوں سے غیر قانونی طور پر قابض ہے اور وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ دوٹوک موقف اپنایا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حق ِخودارادیت کے لیے اپنی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان کا یہ موقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا خواب اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیرکے پرامن حل پر منحصر ہے۔ عالمی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے ان غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو ختم کرائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل کیا جائے۔