مودی کی جماعت بی جے پی کے انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری

اسلام آباد۔30جولائی (اے پی پی):نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل ناروا سلوک کا سامنا ہے حالانکہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں تقریبا 15 فیصد مسلمان اور کم و بیش 80 فیصد ہندو ہیں۔ تجزیہ کاروں اور مبصرین کے مطابق بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( ار ایس ایس) نے ہندوؤں کو مسلمان اور عیسائی مذہب اختیار کرنے پر خبردار کیا اور بھارت میں ” آبادیاتی عدم توازن” روکنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن میں غیر قانونی حراست، تشدد، اور قیدیوں کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں ، لوگوں پر کھلے عام حملہ کرنے، ان کے ذریعہ معاش اور بہت سے معاملات میں ان کی عبادت گاہوں کے خلاف وسیع پیمانے مداخلت شامل ہے ۔تمام خصوصی قوانین جو برسوں پہلے بنائے گئے تھے ، پولیس کے ہاتھ میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور بغیر کسی سماعت کے برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکام نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہیں جن کے ذریعے منظم طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نشانہ جاتا ہے اور حکومت کے ناقدین کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آزاد اداروں، جیسے کہ پولیس اور عدالتوں میں مداخلت کر رہی ہے اور وہ قوم پرست گروہوں کو مذہبی اقلیتوں کو دھمکیاں دینے، ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے پر اکساتی ہے ۔ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ حکومت نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ سیاسی سرپرستی اور تعصب کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر آصف درانی نے کہا کہ اگرچہ بھارتی آئین ملک کی سیکولر نوعیت کی بات کرتا ہے لیکن تمام عملی مقاصد کے حوالے سے یہ ایک ہندو ریاست ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی ایک بڑی آبادی مسلمان ہے، تاہم کاروبار اور بیوروکریسی میں ان کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور ان پر مزید جبر کیا جا رہا ہے۔

لہذا اس تناظر میںاگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ریاست ہے، لیکن میرے خیال میں یہ تصور کچھ غلط ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو صورتحال کا نوٹس لینے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔، انہوں نے کہا کہ 2011 میں بھارت کی طرف سے کی گئی مردم شماری کے مطابق غیر قانونی طور پر بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی کل 12.5 ملین آبادی میں سے 68.31 فیصد مسلمان اور 28.43 فیصد ہندو تھے۔سفیر نے کہا کہ کشمیری تقریباً اپنے علاقے میں محصور ہو چکے ہیں کیونکہ آر ایس ایس کی قیادت والی ہندوتوا طاقتیں کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کر کے مقبوضہ ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ یہ اعلان کر سکیں کہ وہ رائے شماری کے لیے تیار ہیں۔ جنرل (ر)طلعت مسعود نے کہا کہ موجودہ مودی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید دبانے کے لیے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مودی کی جانب سے مسئلہ کشمیر سے نمٹنے کےہتھکنڈوں نے کشمیری عوام کے مفاد اور مستقبل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے اے پی پی کو بتایا کہ مودی کا نظریہ بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے کہ آیا پاکستان اور بھارت کشمیر کے حساس مسئلے پر کسی مفاہمت پر پہنچ سکتے ہیں درحقیقت ان کی پالیسیاں کشمیر کے عوام اور پاکستان کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔معروف مصنف اور تجزیہ کار ارشاد محمود نے کہا کہ بھارت میں مسلمان کو محدود کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی کی حکومت میں انہیں پسماندہ اور بے اختیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پوری ریاست ان کو کچلنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں نسل کشی کا عمل فروغ پا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی نے ملکی سیاست اور بین الاقوامی برادری سے الگ الگ نمٹنے کے لیے دوہرا سیاسی انداز اپن رکھا ہے ۔ وہ ملک میں نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے ، مسلم مخالف بیان بازی پر اپنا سیاسی کیریئر بنا رہا ہے ۔ حقائق الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں:

لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس 301 سیٹیں ہیں لیکن ایک بھی مسلم ایم پی بی جے پی کا نہیں ہے۔ مودی نے بیرونی دنیا میں ایک اعتدال پسند اور پرامن سیاستدان کے طور پر اپنا تشخص بنانے کی کوشش کی جس نے پرامن بقائے باہمی اور علاقائی روابط کے لیے کام کیا۔آخر کار اس کی حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ اس طرح کے دوغلے اور دوہرے چہروں والے سیاسی نقطہ نظر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ڈاکٹر اعجاز حسین نے کہا کہ سیکولر ہندوؤں کے ساتھ ساتھ غیر ہندو برادریوں کو سماجی اور سیاسی طور پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ہندوتوا کے اقدار کو اپنائیں یا پھرشہریت کے خاتمے سمیت ہر طرح کے اخراج کا سامنا کریں ۔مزید برآں، بھارت کےغیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کو یکطرفہ طور پر مودی کی زیر سرپرستی حکومت نے اگست 2019 میں بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا ہے جو بھارت کو ہندوتوا کی بنیاد پر ایک واحد شناخت بنانے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ یقین رکھتی ہے۔لہٰذا، کشمیر اور لداخ کو بھارتی ریاستوں کے ساتھ ضم کر دیا گیا تاکہ اکھنڈ بھارت (متحد ہندوستان) کے زیر التواء مذموم ایجنڈے کو مکمل کیا جا سکے۔

اس کے جغرافیائی سیاسی اثرات لداخ میں چینی فوج کے ساتھ ہندوستانی فوج کی حالیہ جھڑپ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ مودی کی زیر سرپرستی سیاسی ہندوتوا کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ درحقیقت بہت ہوشیاری سے آر ایس ایس جنوبی ہندوستان میں بھی اپنے تنظیمی اور نظریاتی ایجنڈے کو پھیلانے میں مصروف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوتوا کا مقابلہ کرنے اور بھارت کو ایک سیکولر ملک کے طور پر دوبارہ پیش کرنے کے لئے، غیر آر ایس ایس اور بی جے پی گروپوں اور سیاسی جماعتوں کو ان صفوں میں شامل ہونا ہوگا اور تمام محاذوں پر متحد موقف رکھنا ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو بھی مودی سرکار کی طرف سے آر ایس ایس کے آڑ میں کی گئی غلطیوں پر سوال اٹھانے اور اس کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔