آئین کے تحت مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات اور کردار متعین ہے ،وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں خطاب

412

اسلام آباد۔27جولائی (اے پی پی):وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 1973ء کا آئین ملک کی وحدت کی علامت ہے، آئین کے تحت مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات اور ان کا کردار متعین ہے، پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے اورفسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے،یہ گردن کٹ تو سکتی ہے مگر کسی کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ جب تک پارٹی اور عوام کا اعتماد حاصل ہے میں ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کرتا رہوں گا۔

مشکل ترین حالات میں اتحادی جماعتوں کے اصرار پر سیاست کو بچانے کی بجائے ریاست کو بچانے کے لئے وزارت عظمیٰ کا منصب قبول کیا، جوآٹھ سال تک دن رات چور اور ڈاکو کا راگ الاپتا رہا لیکن وہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ کر سکے، اگر ہم نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہا تو خدانخواستہ یہ ملک شدید مشکلات میں گھِرجائے گا، اللہ کی مہربانی اور اس ایوان کی مدد سے ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا، اگر ہم میں اتحاد، یکسوئی اور جذبہ رہا تو ہم ان مسائل سے ملک کو نکالیں گے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بھر میں طوفانی بارشوں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، کراچی، سندھ،کے پی، پنجاب اور چترال سمیت دیگر علاقوں میں بے پناہ انسانی جانوں کا ضیاع اور نقصانات ہوئے۔

اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت یابی عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے مخلوط حکومت پوری طرح آگاہ ہے، چاروں صوبوں کے ساتھ میٹنگز کر چکا ہوں، جہاں جہاں لوگ جاں بحق ہوئے، لوگوں کی املاک کو نقصانات پہنچے وہاں تمام صوبائی حکومتیں امدادی کارروائیاں کر رہی ہیں، وفاقی حکومت بھی این ڈی ایم اے کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں شریک ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جتنی بھی رقم زیادہ ہو کسی انسانی جان کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ وفاقی حکومت مالی امداد میں پیچھے نہیں ہٹے گی اور امدادی پیکج میں مزید اضافہ کریں گے، کل اس سلسلے میں اجلاس طلب کیا ہے، اجلاس کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے امدادی رقم کا اعلان کریں گے۔ کسانوں کے جھل مگسی، کوئٹہ، ژوب، چمن، ٹانک، کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جو جو نقصانات ہوئے ان کا ازالہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت ہے کہ بچے کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بچہ ماں کے پاس آتا اور ماں بچے کے پاس آتی ہے۔ تمام ادارے اس ایوان کی کوکھ سے نکلے ہیں، یہ ایوان ماں کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت مرتب کیا گیا، یہ آئین ملک کی وحدت کی بہت بڑی نشانی ہے، بدترین وقتوں میں اس آئین نے دنیا کے سامنے پاکستان کو مضبوط اور متحد طور پر پیش کیا اور صدیوں تک یہ آئین ملک کو مضبوط کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور وہی مالک اور خالق ہے اور جو اختیار اللہ نے ملک کے 22 کروڑ عوام کے اس نمائندہ ایوان کو دیا ہے وہ مقدس امانت کے طور پر یہ ایوان استعمال کرتا ہے۔ آئین کے تحت ہی مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کا آئین میں کردار متعین ہے، آئین ہی ہر ادارے کو بتاتا ہے کہ اس نے اپنے دائرہ میں رہ کر ملک کی خدمت کرنی ہے مگر اس ملک میں بدقسمتی سے مارشل لاء آئے اور دہائیوں تک قائم رہے، اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا، جمہوریت کا پودا توانا نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ قرب و جوار پر اگر نظر دوڑائیں تو جو ملک ہم سے بہت پیچھے تھے وہ ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔

اغیار نے آئی ایم ایف کو اور غربت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا مگر ہم ابھی تک مسائل کا شکار ہیں، نہ جانے کب ہماری قرضوں سے جان چھوٹے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن میں بدترین جھرلو پھیرا گیا، رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس بند ہوگیا، ایک سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی رکوائی گئی۔ 2018ء کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی۔ ساڑھے تین سالوں میں 20 ہزار ارب سے زائد کے قرضے لئے گئے۔ 5.8 فیصد جی ڈی پی 2019ء میں ایک فیصد سے بھی کم ہوگئی، لوگ بے گھر ہوگئے۔

پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا مگر اس وقت کی اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ سیاست کی بجائے ریاست کو بچانا ہے، تمام قائدین نے مل کر فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم چور دروازے سے آئے ؟ ہم نے وزیراعظم ہائوس پر چڑھائی نہیں کی، ہم نے ووٹ کی طاقت سے تاریخ کا بدترین چیلنج قبول کیا۔انہوں نے تمام اتحادی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرے قائد میاں نواز شریف سمیت سب نے مل کر مجھے یہ ذمہ داری سونپی، یہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے جنرل مشرف نے بھی وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی اور بھی کئی مرتبہ مجھے وزیراعظم بنانے کی پیشکشیں ہوئیں، میں اس وقت ان میں سے کسی کا نام نہیں لوں گا جب تک وہ خود اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر مجھے وزیراعظم بننا ہوتا تو ایک نہیں کئی مواقع تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب اقامہ کی سزا دی گئی تو اس وقت بھی مجھے میری پارٹی نے وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی مگر میں نے فیصلہ کیا کہ میں پارٹی اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق پنجاب میں ترقیاتی کام مکمل کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ غریب اور دکھی قوم کے حالات دیکھ کر رات کو نیند بھی نہیں آتی ہے، بنگلہ دیش سمیت خطہ کے ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا راستہ متعین نہیں کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب ایک سابق چیف جسٹس دن رات سو موٹو لیتا تھا، 55 کمپنیوں کو ایک ساتھ نوٹس جاری ہوتا تھا، مجھ سمیت وزراء اعلیٰ عدالتوں میں جاتے رہے، عدالت اگر بلائے تو احترام سے جانا چاہیے تاہم اگر فیصلہ کرنا ہے تو حق اور انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہیے، یہ ممکن نہیں کہ آپ دوہرا معیار اختیار کریں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں نے سابق حکومت سے قوم کی جان چھڑائی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جس کا دفتر جرمنی میں ہے، نے قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان میں کرپشن کا انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا۔ دوست ممالک کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا گیا، ترکی ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ جو برتائو کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے اس کے باوجود یہ امپورٹڈ حکومت کی بات کرتے ہیں، قوم کو یاد ہے کہ جب یہ ٹرمپ سے مل کر واپس آئے تو کہا کہ وہ ورلڈ کپ لے کر آئے ہیں، یہ بات میں نے یا بلاول بھٹو نے نہیں کی بلکہ عمران خان نے کی تھی۔ سب سے تعلقات خراب کرکے یہ دوسروں کو کٹھ پتلی قرار دیتا ہے، یہ خود ایک کٹھ پتلی تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ روس سے سستے تیل کی آفر کے لئے لیٹر کی بات کی گئی جس کی روس کی حکومت نے تردید کی اور واضح کیا کہ ہم نے ایسا کوئی خط جاری نہیں کیا۔ حال ہی میں گندم کے حوالے سے ایک اجلاس میں سیکرٹری خارجہ بھی موجود تھے، انہوں نے کہا کہ روس کی جانب سے گندم کی فراہمی کی پیشکش ہے، ہمارے پاس تین ملین ٹن گندم کی کمی تھی، ہم نے کہا کہ اگر سستی اور اعلیٰ معیار کی گندم مل رہی ہے تو بات آگے بڑھائی جائے، میں نے کابینہ میں بھی یہ بات کہی کہ ہم نے دیگر ممالک کے نہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کو دیکھنا ہے۔ اس کے برعکس ان کا رویہ یہ تھا کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حکم دیتا اور کہتا کہ اگر میں ہوں تو سب کچھ ہے اور میں نہیں ہوں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ وہ رویہ تھا جس نے پاکستان کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان آٹھ لاکھ ٹن گندم خرید چکا تھا، پرسوں روس سے ایک پیشکش آئی جس پر ہم نے کائونٹر آفر کی کہ ہمیں موخر ادائیگی پر گندم دی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کیوں نہیں بتاتے کہ فارن فنڈنگ کا فیصلہ آٹھ سال سے زیر التوا کیوں ہے، اسرائیل اور بھارت سے پیسے عمران نیازی نے منگوائے مگر کسی نے اس کا سوموٹو نہیں لیا۔ پونے چار سالوں میں ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے تاکہ پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جاسکے، اس کا مقصد یہ تھا کہ ”گلیاں ہو جائیں سونجیاں اور اس میں مرزا یار پھرے” یہ اسی کی سوچ تھی اور ان کا رویہ تھا۔ عمران خان نے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے، اگر میں اس کی تفصیلات کھول دوں تو ایوان اور قوم حیرت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ آٹھ سال تک دن رات چور اور ڈاکو کا راگ الاپتا رہا لیکن وہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ کر سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک خطاکار انسان ہیں لیکن قوم کے سامنے ہمیشہ سچ کہیں گے اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کے دور میں چینی برآمد کی گئی تو چینی 52 روپے فی کلو گرام تھی، برآمدات پر اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی اور یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہوا جب روپے کی قدر گر رہی تھی اور ڈالر اوپر جارہا تھا۔ عمران خان اور اس کے ساتھیوں نے دونوں ہاتھوں سے قوم کو لوٹا، اسی طرح سے چینی کی قیمت 110 روپے تک پہنچائی گئی، گندم پہلے برآمد کی گئی اور پھر اس کی درآمد پر قوم کے اربوں روپے خرچ کئے گئے، جب بین الاقوامی مارکیٹ میں ایل این جی تین ڈالر کی شرح پر کوڑیوں کے مول مل رہی تھی تو یہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہے، اس وقت پانچ ڈالر پر طویل المیعاد معاہدے ہو سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کئے، کسی نے اس وقت اس کا سوموٹو نہیں لیا اور ملکی معیشت تباہی کی طرف بڑھتی گئی۔

اس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اور اس معاہدے کی دھجیاں اڑائی گئیں، اس کے نتیجے میں ملک کو دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا کیا گیا لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی۔ بی آر ٹی پشاور میں بلاخوف و تردید اربوں روپے کی کرپشن ہوئی مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ ہیلی کاپٹر کیس بند ہوا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، مالم جبہ کو نیب نے جپھہ ڈالا اور کہا کہ ہم کیس بند کرتے ہیں، کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا، میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کر رہا لیکن حقائق بتانا ضروری ہیں۔

مونس الٰہی کا کیس نیب نے بند کیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، ہماری بیٹیوں، بہنوں اور پھوپھیوں کو گرفتار کیا گیا لیکن کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس کے برعکس وزیراعظم کی سگی بہن کے غیر اعلان شدہ اثاثوں کو خاموشی کے ساتھ ایف بی آر سے این آر او دلوایا گیا لیکن کسی نے سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حضرت علی کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم اور ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔ 75 سال سے ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں عدل اور انصاف کر رہی ہیں تو برطانیہ جنگ نہیں ہار سکتا اور بالآخر جنونی ایڈولف ہٹلر کو شکست ہوئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہٹلر نے پہلے 33 فیصد ووٹ لئے تھے جبکہ باقی پارٹیوں کو دو تہائی ووٹ ملے تھے لیکن اس نے اپنے وزیر پراپیگنڈا گوئبل کے ساتھ مل کر دن رات جھوٹ پر جھوٹ بولا اور زمین و آسمان کی قلابے ملائے تولوگ اس کو سچ سمجھنے لگے۔ یہ تاریخ کے حقائق ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے، جرمنی میں موٹرویز اور بندرگاہیں تباہ ہوگئیں اور وہ اپنی آزادی کھو گئے، میں ایوان کو اور پوری قوم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہا تو خدانخواستہ یہ ملک شدید مشکلات میں گھر جائے گا، پھر مستقبل کا مورخ اس کا فیصلہ کرے گا کہ سچ اور جھوٹ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 15 سال میں عمران خان کو دودھ پلا کر پالا گیا، اسے جس طرح کا تعاون ملا ہے یہ ملکی تاریخ میں نہ کسی کو ملا تھا اور نہ مستقبل میں ملے گا مگر اس کے باوجود ملکی معیشت کا جنازہ نکالا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی حالات کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، تیل اور گیس کی قیمتیں ہمارے اختیار میں نہیں ہیں، میری شناخت ایک خادم کی حیثیت سے ہے، لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم ڈیلیور کیوں نہیں کر رہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ساڑھے تین سال کا ملبہ صاف کر سکیں اور ملکی معیشت کو ٹھیک کر سکیں۔ وزیر خزانہ اور دیگر وزراء زبوں حال معیشت کی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں مگر ایسے میں بیانات آتے ہیں کہ اگر انہیں اختیارات نہ ملے تو پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ عمران خان نرگسیت کا شکار انا پرست شخصیت ہے، وہ اپنی ذات میں جیتا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر وہ ہیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ ان کی بلا سے ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ ملک کے بائیس کروڑ سے زائد عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ساڑھے تین ماہ میں قوم کی خدمت کی ہے اور ایک دھیلے کی کرپشن کا ہم پر الزام نہیں ہے، ملک میں جب یوریا کی قلت تھی تو ہم نے اپنے دوست ملک چین سے درخواست کی کہ ہمیں دو لاکھ ٹن یوریا درکار ہے، اس پر بین الحکومتی سطح پر مذاکرات ہوئے، چین نے ہمیں 600 ڈالر کی بجائے 500 ڈالر پر یوریا فراہم کی۔ اسی طرح گندم کو سب سے کم ترین ٹینڈر 404 ڈالر پر خریدا گیا، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس ملک اور قوم کے ایک ایک ڈالر کو بچائیں اس کے برعکس جب بین الاقوامی مارکیٹ میں ایل این جی تین ڈالر پر مل رہی تھی تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے، کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ کسی نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2014ء میں اس پارلیمان پر حملہ کس نے کیا، عدالت عظمیٰ کی دیواروں پر گندے کپڑے کس نے لٹکائے اور کس نے کہا ٹیکس دینا بند کردو، کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ مجیب الرحمان ہار جاتا تو غدار کہلاتا جیت گیا تو ہیرو بن گیا، یہاں پر ایک لیڈر کہتا رہا کہ بجلی کے بل مت دو، ہنڈی کے ذریعے پیسے لائو ، ٹیکس نہ دو مگر کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا، چینی صدر نے آنا تھا تو مقتدر اداروں سمیت سب نے اس کی منتیں کیں کہ تین دن کے لئے دھرنا ختم کردو مگر اس نے کسی کی نہ سنی، چینی سفیر نے جب ہمیں اطلاع دی کہ چینی صدر نے اپنا دورہ موخر کردیا ہے تو ہم رات کو سو نہیں سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کے التوا کی وجہ سے بجلی کے کارخانے تاخیر کا شکار ہوئے، ترقی کا عمل متاثر ہوا مگر کسی نے بھی اس صورتحال کا نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ دور کی بات نہیں مارچ میں جس طرح آئین شکنی کی گئی، ڈپٹی سپیکر ، صدر مملکت اور عمران خان نے جس طرح آئین شکنی کی مگر انہیں کسی نے طلب نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کئے گئے اس ملک کا کیا بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کھلے عام انٹرویو دیا کہ عمران نیازی نے کہا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز اور خواجہ آصف سمیت سب پر کیسز بنائو مگر انہوں نے انکار کردیا، اس کا بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی ادارے این سی اے کو میرے بارے میں عمران نیازی اور شہزاد اکبر نے خط لکھا مگر اللہ تعالیٰ نے میری اور پاکستان کی عزت رکھی اور مجھ پر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔

انہوں نے این سی اے کی 190 ملین پاونڈ کی ریکوری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ عمران نیازی کی کابینہ کا اجلاس جب ختم ہوا تو شہزاد اکبر نے وزیراعظم کے کان میں کھسر پھسر کی اور ایک بند لفافہ دیا اور کہا کہ اس کی بھی منظوری کابینہ سے لے لیں، بند لفافے میں فیصلہ کابینہ سے لیا گیا، سیکرٹری کابینہ کے اصرار پر یہ بند لفافہ کھولا گیا تو اس میں یہ بات تھی کہ شہزاد اکبر کو اجازت دی جائے کہ وہ این سی اے سے اس رقم کا معاہدہ کرلے، یہ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اگر مجھ پر 5 ہزار پاونڈ بھی ثابت ہو جاتے تو کیا یہ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے خدائے بزرگ و برتر اس ایوان اور 22 کروڑ عوام کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حالات مشکل ضرور ہیں مگر اس ایوان کی مدد اور اللہ کی مہربانی سے پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے اور اس فسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، یہ گردن کٹ تو سکتی ہے مگر کسی کے سامنے جھک نہیں سکتی۔

انہوں نے کہا کہ جب تک پارٹی اور عوام کا اعتماد حاصل ہے میں ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 1930ء میں عظیم کساد بازاری کا وقت آیا مگر یہاں اس جیسے حالات ابھی بھی نہیں ہیں، اگر ہم میں اتحاد، یکسوئی اور جذبہ رہا تو ہم ان مسائل سے ملک کو نکالیں گے۔