اسلام آباد۔13اپریل (اے پی پی): حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے اجتماعی سوچ کا راستہ اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کی منظوری سے قبل ہی عدالت عظمی میں چیلنج ہونے اور بنچ کی تشکیل کو مسترد کر تے ہیں، اس معاملے میں فل کورٹ بنایا جائے تا کہ تمام صوبوں کی شمولیت ممکن ہوسکے،ادارے آئینی حدود میں رہیں، پارلیمان میں ووٹ گنے جاتے ہیں، اداروں میں اجتماعی دانش ہوتی ہے،اداروں کی بہتری،غیر جانبداری کے لئے پارلیمنٹ کی ذمہ داری اور اختیار ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنما ئوں قمر الزمان کائرہ، کامران مرتضی،میاں افتخار احمد،امین الحق،سینیٹر طاہر بزنجو،ہاشم نوتیز ئی، سینیٹر شفیق ترین اور اسرار احمد ترین نے جمعرات کو پی ٹی وی ہیڈکوراٹرز میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیرقانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج اتحادی جماعتوں کامشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا،بہت افسوس اور دکھ سے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جو قانون سازی کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہے۔ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت یہ بل واپس کیا جس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرانے کے بعد دوبارہ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے،20اپریل تک صدر مملکت اس بل پر فیصلہ کرسکتے ہیں، یہ ابھی تک ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں بنا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اس کے لئے 8رکنی بنچ تشکیل دیدیا گیا،ماضی میں کبھی بھی قانون سازی سے قبل معاملہ بنچ میں مقرر نہیں کیا گیا، جب قانون بن جائے تواسے عدالت دیکھ سکتی ہے۔
بنچ کی تشکیل میں حکومت اور پارلیمان کے بارہا مطالبے پر غور نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کیس میں بھی لارجر بنچ نہیں بنایا گیا، بار کونسلز نے عدلیہ کی آزادی اورشفافیت کے لئے اپنا کردار ادا کیا ان کے مطالبے پربھی غور نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں میں انتخابات سے متعلق پٹیشن چار تین سے مسترد ہوئی اس کے باوجود تین رکنی بنچ بنا کر فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عدالت عظمی میں جو بنچ تشکیل دیا گیا ہے اس میں چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی وکلا برداری نے قانون سازی مکمل ہونے سے قبل بنچ کی تشکیل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے، ان ساری باتوں کے باوجود معاملات جس سمت میں جاتے نظرآرہے ہیں وہ اچھے نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اداروں کی بہتری،غیر جانبداری کے لئے پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون سازی کرے،یہ اختیار کسی اورکو نہیں دیکھا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وفاق چار اکائیوں پر مشتمل ہے لیکن سپریم کورٹ میں بلوچستان اور کے پی کے سے جج صاحبان کی موجودگی کے باوجود بنچ میں شامل نہ کیے جانے پر گھر کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 12اکتوبر 2019 وکلا کنونشن میں ان مطالبات کو دوہرایا گیا تھا ، آئین کی شق 184تین کے بہت زیادہ استعمال کو روکا جائے،ماضی میں ازخود نوٹس کی قیمت پوری قوم کو ادا کرنا پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ توقع رکھتے ہیں کہ آج ہی یہ بنچ تحلیل کر دیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ پارلیمان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کو آئین کے مطابق چلایا جائے، 22کروڑ کے عوام کے نمائندہ ادارے کو فیصلے کو کسی صورت ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین کو ماننے والے ہیں،ہماری سیاسی جماعتوں نے آئین کی بالادستی،جمہوریت کی بقا کے لئے بہت قربانیاں دیں ہیں، 22کروڑ عوام کو گواہ بنا کر کہہ رہے ہیں کہ ادارے آئینی حدود میں رہیں۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمان میں ووٹ گنے جاتے ہیں، اداروں میں اجتماعی دانش ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اپنا مطالبہ د ہرا رہے ہیں کہ قانون سازی کا عمل مکمل ہونے دیں پھر چیلنج بھی ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما،مشیر برائے امور کشمیر گلگت بلتستان قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ صدر مملکت نے ابھی تک اس بل پر حتمی رائے نہیں تھی،بل پارلیمنٹ کے پاس ہے اور سپریم کورٹ نے معاملے کو ٹیک اپ کرلیاہے، کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لئے روکا جارہا ہے؟انہوں نے کہا کہ اسی ادارے کے وقار کے لئے ہم تمام جماعتوں نے ساری زندگی جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمی میں یہ بنچ بنا کر پارلیمان کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہےجسےکسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہی حالات خراب ہیں،اداروں میں کسی قسم کا تصادم اچھا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج تک چیف جسٹس کے اختیارات کو چیلنج نہیں کررہے،آج بھی ہم تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ حالات کو ٹھنڈا کیا جائے۔ جمعیت علما اسلام کے رہنما کامران مرتضی نے کہا کہ ابھی تک قانون نہیں بنا لیکن اسے چیلنج بھی کردیا گیا ہے،ہم نے جنوری 2023 میں کیسز فائل کیے ان پر ابھی تک نمبر بھی الاٹ نہیں ہوئے دوسری جانب قانون بننے سے قبل سماعت کے لئے فکس ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8رکنی بنچ بن جانے سے تو اپیل کا حق بھی ختم ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کےمواد پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، 20، 25سال سے ایک مطالبہ چلا آرہا تھا جسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی سنیارٹی کے حوالے سے کیس فکس نہیں ہورہا۔انہوں نے کہا کہ کیسز اور اپیلوں کی سماعت کا معیار ہونا چاہیے۔اے این پی کے رہنما میاں افتخار نے کہا کہ صدر مملکت نے اس بل کوروکا،اس پر اعتراض لگا اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد دوبارہ گیا تو عین اسی وقت عدالت میں درخواست کادائرہونا اور سماعت کے لئے مقررہونے پر تعجب ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سینئر ججز پرمشتمل بنچ بننا چاہیے، اس بنچ میں ایسے ججز بھی ہیں جن پر اعتراضات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ اس معاملے پر بھی فل کورٹ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا کہ حکومت صرف وزیراعظم نہیں بلکہ کابینہ بھی حکومت کا حصہ ہوتی ہے، ایسے ہی ہم کہتے ہیں کہ بینچوں میں بھی تمام صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد لائی لیکن یہ بھی بعض لوگوں کو پسند نہیں آرہی، کوئی پارلیمنٹ کے اختیارات، قانون سازی کو بھی نہ مانے تو پارلیمان کی کیا حیثیت رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے وقار کے لئے بنچ کی تشکیل پر نظر ثانی کی جائے، آئین اور پارلیمنٹ کا راستہ روکنےکی مثال بن گئی تو ملک کو چلانا ممکن نہیں رہے گا۔ایم کیو ایم کے رہنما وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے کہا کہ تمام سیاسی پارٹیاں حکومت کے ساتھ یکجہتی کررہی ہیں، 1973 کا آئین سپریم اور چاروں صوبوں کو آپس میں ملاتا ہے،پارلیمان، عدلیہ کی آزادی و غیر جانبداری اور ملک میں جمہوری روایات کوقائم رکھنے پر یقین رکھتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے، پارلیمان بالادست ہے،قانون سازی بھی یہ ہی ادارہ کرے گا،ہر ترازو کا پلڑا برابر ہونا چاہیے۔
نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنما سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ آئین ہی سب سے بڑا قانون ہے،آئین کی اصل روح پرعمل ہوتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، ملک سیاسی اور آئینی بحران کا شکار نہ ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ ابھی قانون بنا ہی نہیں ہے تو اس کو کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے، اس کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، محاذ آرائی کے ماحول میں فل کورٹ نہ بنانے پرتعجب ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین کی روح کے مطابق تمام وفاقی اکائیوں کواس بنچ میں شامل کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ہاشم نوتیز ئی نے کہا کہ شروع سے ہی چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے بلوچستان کوبہت امیدیں وابستہ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہر ادارہ اپنے آئینی دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرے۔پختونخوا ملی پارٹی کے رہنما سینیٹر شفیق ترین کہا کہ پارلیمان کا حق ہے کہ وہ قانون سازی کرے،سپریم کورٹ میں لوگ انصاف کیلئے جاتے ہیں،انصاف ہوتا ہوا نظربھی آنا چاہیے، اتحادی حکومت پہلے ہی اہم امور پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کرتی آئی ہے،آج بھی ہمارا یہ ہی مطالبہ ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اسرار ترین نے کہا کہ ہم اتحادی حکومت کا حصہ ہیں، ملک میں سیاست اسی لئے کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ، آئین اورجمہوری عمل کی بالادستی رہے، عدلیہ کا احترام کرتے ہیں ،ان کا کام ہے کہ آئین کی تشریح کرے لیکن آئین کی ری رائیٹنگ کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی کہ آئین اور پارلیمنٹ بالادست رہے۔