اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل 10 نومبر کو بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لے گا،مختلف ممالک کی 70 تنظیمیں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کر چکی ہیں

اسلام آباد۔9نومبر (اے پی پی):اقوام متحدہ 10 نومبر کو بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لے گا۔انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں پہلے ہی بھارت کے سیکولر سیاست کےغلط استعمال کو بے نقاب کیا ہے رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت حکومت میں انسانی حقوق اور آئینی تحفظات کے حوالے سے لوگوں کو سنگین خدشات ہیں ۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا یونیورسل پیریڈک ریویو (UPR) ورکنگ گروپ 7-18 نومبر کو ہونے والے اپنے سیشن میں چوتھی بار بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لے گا ۔

بھارت کا پہلا، دوسرا اور تیسرا یونیورسل پیریڈک ریویو بالترتیب اپریل 2008، مئی 2012 اور مئی 2017 میں ہوا۔یونیورسل پیریڈک ریویو ایک منفرد عمل ہے جس میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ہر ریاست کو یہ وضاحت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں، بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے آئین کے ساتھ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے پرعزم ہے جس میں سیکولر جمہوریت کے اندر شہری اور سیاسی حقوق، انصاف، آزادی، مساوات، بھائی چارے اور انفرادی وقار کی ضمانت دی گئی ہے۔

تاہم، مختلف ممالک میں تقریباً 70 انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ رپورٹس میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے جن میں آزاد اور جمہوری اداروں کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن، مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں، امتیازی سلوک اور اکسانے کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور انہیں ہراساں کرنے کے لئے کالے قوانین ، انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے قوانین کا استعمال شامل ہے ۔

اقوام متحدہ کو اپنی رپورٹیں پیش کرنے والوں میں، ایکشن ایڈ ایسوسی ایشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، کرسچن سولیڈیرٹی ورلڈ وائیڈ، بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے ورلڈ وائڈ پارٹنرشپ ، ہیومن رائٹس واچ، جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم، بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ، اسلامک ہیومن رائٹس کمیشن ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچرشامل ہیں۔

اپنے بیانات میں، انسانی حقوق کے اداروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک قومی انسداد تشدد قانون نافذ کرے، نفرت انگیز تقاریر کو جرم قرار دینے اور فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے، اس کے علاوہ امتیازی سلوک کے خلاف سخت قانون اور پالیسیاں وضع کرے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سفارش کی کہ نریندر مودی ک زیر ی قیادت حکومت انسانی حقوق کے محافظوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلامیہ کی تعمیل میں انسانی حقوق کے محافظوں کو پہچاننے اور ان کے تحفظ کے لیے ایک قومی قانون بنائے۔یورپی سینٹر فار لاء اینڈ جسٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ذات پات کا نظام کے خاتمے کے باوجوداب بھی دیہی علاقوں اور ریاستوں میں یہ نظام بہت زیادہ رائج ہے، جہاں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین موجود ہیں۔

تامل ناڈو میں فورم فار یو پی آر؛ پیپلز واچ، مدورائی (انڈیا) اور ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز الرٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی مشترکہ روپورٹس میں کہا گیا ہے کہ درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں، اور نہیں وسائل، تعلیم، روزگار اور آمدنی پیدا کرنے کے دیگر مواقع تک رسائی کی کمی ہے۔

کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے کہا کہ جموں و کشمیر یونیورسل پیریڈک ریویو میں ایک اس ا ہم پہلو کاذکر تک نہیں کیا گیا ہے کہ بھارتی مسلح افواج اور پولیس پبلک سیفٹی ایکٹ، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے تحت جموں و کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد کشمیریوں کو جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور بہت سے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کو باقاعدگی سے بند کرتی ہے۔ میڈیا پر بھاری پابندیاں عائد ہیں اور متعدد صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو دہشت گردی کے جعلی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ، اور حکام انسداد دہشت گردی کے چھاپوں کے استعمال سمیت ناقدین کو باقاعدگی سے ہراساں کرتے ہیں ۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے مشاہدہ کیا کہ گرفتاری کے بعد دلت برادریوں کو پرتشدد تلاشی اور قبضے کی کارروائیوں، جھوٹے الزامات، ذات پات کی بنیاد پر گالی گلوچ، شدید مار پیٹ، غیر انسانی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

عالمی ادارے کو بتایا گیا کہ پولیس یا دیگر حکام کی تحویل میں بہت سی قبائلی خواتین کی عصمت دری یا جنسی زیادتی کی گئی اور یونیورسل پیریڈک ریویوکے دوران، انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں اور تنقید کرنے والے افراد کو سزا دینے کے لیے بھارتی حکومت کے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، نیشنل سیکیورٹی ایکٹ اور جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ۔انسداد دہشت گردی کے قانون کا بے دریغ غلط استعمال کیا گیا ۔

اقوام متحدہ کی توجہ ہجوم کے تشدد یا ہندو قوم پرست گروہوں کی طرف سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی طرف بھی مبذول کرائی گئی جس میں ایمنسٹی نے مذہبی منافرت کی وکالت کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔

وکلاء کی تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں اقوام متحدہ کو بتایا کہ انسانی حقوق کے وکلاء اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں جسمانی حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ایمنسٹی نے کہا کہ آزاد میڈیا اداروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو حد سے زیادہ وسیع مالیاتی قوانین کے غلط استعمال اور اختلافی رپورٹوں کی سنسر شپ کے ذریعے ڈرایا دھمکایا گیا۔رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ پرامن مظاہرین پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور تعزیرات ہند کے تحت بشمول بغاوت، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، اور نفرت انگیز تقریر اور دیگت جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

دلت برادری کے حقوق کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے کئی انسانی حقوق کے اداروں نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ دلت عیسائی اور دلت مسلمان معاشی حالات کے لحاظ سے سب سے زیادہ خراب ہیں۔کچھ تنظیموں نے بھارتی کسانوں کو درپیش مسائل کو بھی اجاگر کیا جو ابھی تک ادارہ جاتی قرضہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 2020 میں زراعت کے شعبے سے وابستہ 10,677 افراد نے خودکشیاں کی ہیں ۔اقوام متحدہ کو بتایا گیا کہ کوویڈ-19وبائی امراض کے دوران غریبوں کے گھروں کی جبری بے دخلی اور مسماری کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا اور اس وقت تقریباً 16 ملین افراد کو بے گھر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ وبائی امراض کے دوران بھارتی جیلوں کے حالات خراب ہوگئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ جیل کی دو تہائی آبادی مقدمے سے پہلے حراست میں تھی، جس میں دلتوں، آدیواسیوں اور مسلمانوں کی غیر متناسب نمائندگی کی گئی تھی۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ میں ترمیم کرے تاکہ اس بات کی ضمانت دی جا سکے کہ شہریت تک رسائی میں قومیت یا مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کی کم از کم 10 ریاستوں نے جبری مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کی ہے لیکن درحقیقت عیسائیوں، خاص طور پر دلت یا آدیواسی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین کا غلط استعمال کیا گیا ۔

انہیں ہندو عورتوں کے ساتھ تعلقات میں مسلمان مردوں کو ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ۔ ہیمومن رائٹس واچ نے مودی کی زیرقیادت حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حجاب پر پابندی لگانے والی ہدایات کو منسوخ کرے، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اسکول اور یونیورسٹیاں جامع جگہیں ہوں، اور لڑکیوں اور خواتین کے مذہب اور اظہار کی آزادی کے حق کا تحفظ کریں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے جو سرکاری اعدادوشمار میں بھی درج نہیں ہیں۔

انسانی حقوق تنظیموں نے پولس فورس میں اقلیت مخالف تعصب کی طرف اشارہ کیا اور پولیس فورس، سول سروس، انصاف کے اداروں اور منتخب اداروں میں اقلیتوں کی زیادہ نمائندگی کے لیے مواقع پیدا کرنے پر زور دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں عیسائیوں کے خلاف جاری انسانی حقوق ورزیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جن میں جھوٹے الزامات اور گرفتاریاں، جبری تبدیلی ہندو مذہب، نفرت انگیز مہم، حملہ، قتل، گرجا گھروں پر غیر قانونی قبضے، زبردستی نقل مکانی، مذہبی اجتماعات میں خلل ڈالنا، اور عیسائیوں ۔ گھروں ، گرجا گھر وں اور چرچ کی ملکیتی دیگر جائیدادیں کی توڑ پھوڑ شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ بھارت میں سیکورٹی فورسز اور پولیس ماورائے عدالت قتل یا جعلی مقابلے میں ہلاکتوں میں ملوث رہی ہیں اور ملک میں ماورائے عدالت قتل کا کلچر معمول پر آ گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حراستی تشدد اور تشدد بھارت بھر میں قانون نافذ کرنے کی معمول کی حکمت عملی پر قائم ہے۔