اسلام آباد۔29دسمبر (اے پی پی):آزادی ہند کے رہنما مولانا محمد علی جوہر کی برسی4جنوری کو منائی جائے گی ۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بے لوث خدمت گار، تحریکِ خلافت کے متوالے اور جدوجہدِ آزدی کے راہ نما تھے۔ مولانا محمد علی جوہر10 دسمبر 1878ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1898ء میں گریجویشن اور آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ قلم کی طاقت اور اخبار کے زور پر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے کیلئے انھوں نے صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے انگریزی اخبار کامریڈ کو کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی۔
اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد علی جوہر اس سے وابستہ ہوگئے اور عملی سیاست شروع کی۔مولانا کی قابلیت اور ان کے فہم و تدبر نے انھیں اس تنظیم کا دستور مرتب کرنے کا موقع بھی دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ اس وقت زور پکڑنے والی تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ مولانا جوہر کی والدہ اماں بی نے ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد میں مسلم لیگ کے لیے جلسے اور اس پلیٹ فارم پر خواتین کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے بیٹوں کو بھی اسلام اور پاکستان کے نام پر مر مٹنے کا درس دیا۔
تحریکِ خلافت کے دوران مولانا جوہر پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ 1928ء میں مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے جواب میں تیار کیے جانے والے قائداعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں ان کی معاونت کی۔وہ ایک انقلابی اور سیاسی راہ نما ہی نہیں بلکہ علم و ادب کے میدان میں بھی اپنی انشا پردازی اور مختلف اصنافِ ادب میں تخلیقات کی وجہ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں شعر و ادب سے دلی شغف تھا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں آزادی کے مضامین اور مجاہدانہ رنگ نظر آتا ہے۔
4 جنوری 1931ء کو وفات پانے والے صحافت، علم و ادب اور جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بیت المقدس میں سپردِ خاک کیا گیا۔ان کی برسی کے موقع پر علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔