ایوان بالا کے اجلاس میں مالی سال 2025-26 کے بجٹ پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سفارشات پیش

7

اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):ایوان بالا کے اجلاس میں مالی سال 2025-26 کے بجٹ پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سفارشات پیش کر دی گئیں۔

ہفتہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے مالی سال 2025-26ء کے بجٹ پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سفارشات پیش کیں۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سفارشات پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی سفارش کی ہے، سرکاری اداروں کے پاس رقوم بینکوں میں پڑی ہوتی تھی جو حکومت بینکوں سے ادھار لیتی تھی اور پھر اس پر سود ادا کرتی تھی، اب ہم نے تجویز دی ہے کہ اگر اداروں کی رقم حکومت کے پاس جمع ہو تو حکومت کو اربوں روپے قرضہ کم لینا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے کسٹمز سیلز ٹیکس میں بھی ترمیم تجویز کی ہے۔ کمیٹی نے سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس کو مسترد کر دیا ہے، کمیٹی نے سٹیشنری آئیٹمز پر ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی ہے، کمیٹی نے سٹیل سیکٹرز میں اصلاحات کو بھی مسترد کر دیا ہے، حکومت نے 800 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس ساڑھے 12 سے 18 فیصد کر دیا گیا تھا جو اب کمیٹی نے اس کو ساڑھے 12 فیصد تک برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے کیونکہ حکومت کی پالیسی کے مطابق یہ ریٹ 2026 تک ساڑھے 12 فیصد ہی رکھا جانا تھا۔ کمیٹی نے پرنٹ، میڈیا اور آئی ٹی سروسز پر ٹیکسز نہ بڑھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر برائے خزانہ نے بھی اس سفارش سے اتفاق کیا ہے۔

اساتذہ اور پروفیسرز کو دی جانے والی انکم ٹیکس استثنیٰ، جو 2025 تک لاگو تھا، اس کو برقرار رکھنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ اسی طرح، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے بھی تجویز دی گئی ہے کہ تنخواہوں کو مہنگائی کے تناسب سے بڑھایا جائے، کم از کم تنخواہ کے حوالے سے دو تجاویز دی گئیں بعض ارکان نے 50 ہزار اور بعض نے 40 ہزار روپے ماہانہ کی تجویز دی اور دونوں کو کمیٹی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

ٹیکس سلیب میں نرمی کے لیے بھی سفارش کی گئی کہ کم آمدنی والے افراد (ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن تک) کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ کمیٹی نے مزید تجویز دی ہے کہ معذور افراد کو ہر ماہ 10 ہزار روپے وظیفہ بطور خصوصی گرانٹ دی جائے تاکہ ان کو معاشی طور پر سہارا مل سکے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بجٹ پر بحث کے دوران کسی نے بھی سیاسی بنیاد پر بات نہیں کی، نہ ہی کسی نے پارٹی بنیاد پر کوئی مسئلہ اٹھایا تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین کی جانب سے جو بھی بات کی گئی وہ صرف اور صرف عوامی مفاد میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ بعض تجاویز اگر رپورٹ میں شامل ہونے سے رہ گئیں تو وہ اپوزیشن کو یقین دلاتے ہیں کہ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا اور ایسی کسی بھی رائے یا ترمیم کو کمیٹی کی رپورٹ کا حصہ بنانے کے لیے وہ تیار ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو بھی رکنِ سینیٹ، خواہ وہ حکومتی بینچ سے ہو یا اپوزیشن سے، اس نے جو بھی سفارش دی، اس کو کمیٹی نے سنا، اس پر غور کیا، اور رپورٹ میں شامل کیا۔ حتی کہ جن ترامیم پر کمیٹی نے اختلاف کیا، وہ اختلافی نوٹ کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگرچہ سینیٹ کا ووٹ بجٹ منظوری میں لازمی نہیں، لیکن سینیٹ کی سفارشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے سال پیش کردہ سفارشات میں سے 52 فیصد کو حکومت نے تسلیم کیا تھا، جو اس ایوان کے ارکان کی محنت کا اعتراف ہے۔انہوں نے زور دیا کہ تمام ارکان بجٹ کو سنجیدگی سے لیں اور سفارشات ضرور دیں۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ اس بار بھی ان سفارشات میں سے اکثریت کو حکومت تسلیم کرے گی اور باقاعدہ اعلان کے ذریعے ان سفارشات کی تفصیل ایوان میں پیش کی جائے گی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے قائمہ کمیٹی کے تمام ممبران، اپوزیشن اور حکومتی اراکین، وزیر خزانہ، وزیر مملکت برائے خزانہ، ایف بی آر کے چیئرمین اور وزارتِ خزانہ کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا کہ وزیر خزانہ اور وزیر مملکت نے مکمل طور پر قائمہ کمیٹی کو وقت دیا اور تمام نکات پر وضاحتیں فراہم کیں۔ انہوں نے اس عمل کو بجٹ سازی میں جمہوری شمولیت کی بہترین مثال قرار دیا۔