لندن۔23دسمبر (اے پی پی):برطانیہ میں مسلمانوں کے شادی اور طلاق کے خاندانی معاملات پر فیصلہ دینے والی شرعی عدالتوں کی تعداد 85 ہو گئی ہے ۔انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق یہ شرعی عدالتیں اسلامی سکالرز کے پینل پر مشتمل ہیں، جو زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔
وہ غیر رسمی اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور طلاق اور شادی سے متعلق دیگر معاملات پر مذہبی احکام جاری کرتے ہیں۔ بعض اوقات شمالی امریکا اور یورپ کے مسلمان بھی ان اسلامی کونسلوں سے رجوع کرتے ہیں جس کی بنا پر برطانیہ شرعی عدالتوں کے حوالہ سے مغربی ممالک کے دارالحکومت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ برطانیہ میں بعض سماجی تنظیموں نے شرعی عدالتوں کی بڑھتی ہوئے تعداد پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
نیشنل سیکولر سوسائٹی نے شرعی عدالتوں کی صورت میں ایک متوازی قانونی نظام کے وجود پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سوسائٹی کے چیف ایگزیکٹیو سٹیفن ایونز نے ایسی کونسلوں کےحوالے سے متنبہ کیا ہے کہ یہ سب کے لیے ایک قانون کے اصول کو کمزور کرتی ہیں اور اس سے خواتین اور بچوں کے حقوق پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرعی عدالتوں کی زیادہ ضرورت ان مسلمان خواتین کو پڑتی ہے جو اپنی شادی ختم کر کے شوہر سے علیحدگی کی خواہاں ہوں اور مسلمان مردوں کو ان عدالتوں کی کوئی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔